برطانیہ عظمیٰ کی ملکہ معظمہ جلالت مآب الزبتھ ثانی نے مسلم دنیا کی سب سے ’مضبوط جمہوریت‘ پاکستان کے ’دل‘ لاہور کے شہریوں کی طرف سے ترتیب دئیے گئے عصرانے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا‘ ’وقت آگیا ہے کہ مسلم دنیا اور مسیحی دنیا کے درمیان مکالمے کا آغاز ہو جانا چاہئے!‘یہ 1997ء کے اکتوبر کے وسط کا کوئی دن تھا!ریاست ہائے متحدہ کے موجودہ جناب براک اوبامہ نے 2009ء کے جون کے پہلے ہفتے کے وسط میں یہ بات دہرانے کے لئے مصر کے دل قاہرہ اور قاہرہ کے دل ’ازبر‘ کا انتخاب کیا ہے! مگر ہم نے نہ اس وقت بات پر توجہ دی‘ نہ آج اس ’آموختے‘ پر توجہ دینے کیلئے تیار ہیں!
اگر ’1997ء سے 2009ء تک‘ پھیلا طویل عرصہ بھی ہمارے انداز فکر پر کوئی اثر مرتب نہیں کر پایا تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارا ’علم‘ اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ ’عمل‘ ہڑپ کر بیٹھا ہے!
ہم جانتے ہیں کہ ’اسرائیل کا ایجنڈا‘ کیا ہے؟ امریکہ کیا چاہتا ہے؟ بھارت کس مار پر ہے؟ ایران کے مفادات اسے کدھر لئے جا رہے ہیں؟ افغانستان اپنی جان بچانے کیلئے پاکستان کو ’قربانی کا بکرا‘ بنانے کیلئے کس ’خفیہ کارکردگی‘ میں مصروف ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ امریکہ‘ روس اور چین کے ’مشترکات‘ کیا ہیں؟ اور مختلفات کیا ہیں؟ امریکہ چین کو غیر مستحکم کرنے کیلئے کیا کر رہا ہے؟ اور چین امریکہ کا ہاتھ کس رخ سے دور رکھ رہا ہے؟ روس کہاں تک امریکہ کے نزدیک رہ سکتا ہے اور چین سے زیادہ سے زیادہ کتنا دور ہو سکتا ہے! بھارت جنگ آفرینی میں ’عمل انگیز‘ کے طور پر کس حد تک ’عامل‘ رہ سکتا ہے اور عملی ’جنگ‘ سے کس حد تک ’دور‘ بیٹھا خاموش تماشائی کا کردار ادا کر سکتا ہے؟ ہم سب کچھ جانتے ہیں! لیکن ہم صرف ایک بات نہیں جانتے اور وہ یہ کہ پاکستان کا ایجنڈا کیا ہے؟
ہم ابھی تک یہ نہیں جان پائے کہ قومیں بہت چھوٹے چھوٹے اہداف مقرر کرکے اور انہیں حاصل کرکے کہاں کی کہاں جا پہنچی ہیں! کیا ہماری قسمت میں کوئی قومی ایجنڈا نہیں؟پاکستان کے سولہ کروڑ لوگ میجر عابد مجید کی طرح سینہ سپر ہیں! یہ ایک ایسا ایجنڈا ہے جسے کسی کے کہے بغیر عوام سینوں میں لئے پھر رہے ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کے ڈر سے آج تک اس بلندی کی طرف نہیں اٹھ سکی، جس بلندی پر پاکستانی پرچم 1947ء سے لہرا رہا ہے!
جناب بُراک اوباما مسلم اور مسیحی دنیا کے درمیان ’’مکالمے‘‘ کے ذریعے ’’اہداف‘‘ کے حصول کی راہ پر گامزن ہیں! ہم ان کی تقریر کا خیر مقدم، یا اس پر ’’خاموشی‘‘ اختیار کرنے کی صورت کا انتخاب اسی وقت کر سکیں گے جبکہ ہمیں علم ہو گا کہ ہمارے قومی اہداف کیا ہیں؟ صرف ’’سر بچاؤ‘‘ کوئی قومی ہدف، نہیں ہو سکتا! یہ قوم کی عارضی پسپائی، یا حکمت آمیز پسپائی تو ہو سکتی ہے، قومی منزل، نہیں قرار پا سکتی۔ ہم روٹی کپڑا اور مکان مہیا کرتے کرتے عوام کے پاؤں تلے کی زمین گھسیٹ اور سر پر چھاؤں کرتا آسمان بھی اڑا لینے میں کبھی عار محسوس نہیں کر پاتے! ہم کہتے کچھ ہیں؟ اور کرتے کچھ ہیں! لہٰذا دنیا ہم پر اعتبار اور اعتماد کرنا چھوڑ چکی ہے ۔ جہاں پالیسی کی بات آئے گی وہاں ’’کمیشن‘‘ بٹھانے اور کھانے کے اسباب بھی پیدا کر دیئے جائیں گے اور یوں کھوتا دوبارہ ’’کہوہ‘‘ میں ہو گا اور عوام محض پینے کا پانی حاصل کرنے کے لئے باہر نکالنے کے کام سے لگ جائیں گے۔!
ہمارا خیال ہے کہ اب ہمیں لوگوں کی نیتیں ٹٹولنے کی جگہ اپنا دل ٹٹولنے کی عادت ڈال ہی لینا چاہئے! اس سے ہمارے ساتھ ساتھ دنیا کا بھی بھلا ہو گا! ہم تو اب دعائیں دینے والوں کو بھی ڈانٹ پھٹکار کر گھر کے دروازے سے بھگا دیتے ہیں کہ ہمیں احساس ہو گیا ہے کہ دعائیں مستجاب نہیں رہیں! حالانکہ جناب امیر علیہ السلام فرماتے ہیں: لوگو! یہ نہ سوچو کہ اللہ دعا فوراً قبول کیوں نہیں کرتا؟ بلکہ شکر ادا کرو کہ اللہ سبحان وتعالیٰ ہمارے گناہوں کی سزا فوراً نہیں دیتا!‘‘ سبحان اللہ! سبحان اللہ!
اگر ’1997ء سے 2009ء تک‘ پھیلا طویل عرصہ بھی ہمارے انداز فکر پر کوئی اثر مرتب نہیں کر پایا تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارا ’علم‘ اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ ’عمل‘ ہڑپ کر بیٹھا ہے!
ہم جانتے ہیں کہ ’اسرائیل کا ایجنڈا‘ کیا ہے؟ امریکہ کیا چاہتا ہے؟ بھارت کس مار پر ہے؟ ایران کے مفادات اسے کدھر لئے جا رہے ہیں؟ افغانستان اپنی جان بچانے کیلئے پاکستان کو ’قربانی کا بکرا‘ بنانے کیلئے کس ’خفیہ کارکردگی‘ میں مصروف ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ امریکہ‘ روس اور چین کے ’مشترکات‘ کیا ہیں؟ اور مختلفات کیا ہیں؟ امریکہ چین کو غیر مستحکم کرنے کیلئے کیا کر رہا ہے؟ اور چین امریکہ کا ہاتھ کس رخ سے دور رکھ رہا ہے؟ روس کہاں تک امریکہ کے نزدیک رہ سکتا ہے اور چین سے زیادہ سے زیادہ کتنا دور ہو سکتا ہے! بھارت جنگ آفرینی میں ’عمل انگیز‘ کے طور پر کس حد تک ’عامل‘ رہ سکتا ہے اور عملی ’جنگ‘ سے کس حد تک ’دور‘ بیٹھا خاموش تماشائی کا کردار ادا کر سکتا ہے؟ ہم سب کچھ جانتے ہیں! لیکن ہم صرف ایک بات نہیں جانتے اور وہ یہ کہ پاکستان کا ایجنڈا کیا ہے؟
ہم ابھی تک یہ نہیں جان پائے کہ قومیں بہت چھوٹے چھوٹے اہداف مقرر کرکے اور انہیں حاصل کرکے کہاں کی کہاں جا پہنچی ہیں! کیا ہماری قسمت میں کوئی قومی ایجنڈا نہیں؟پاکستان کے سولہ کروڑ لوگ میجر عابد مجید کی طرح سینہ سپر ہیں! یہ ایک ایسا ایجنڈا ہے جسے کسی کے کہے بغیر عوام سینوں میں لئے پھر رہے ہیں اور یہی لوگ ہیں جن کے ڈر سے آج تک اس بلندی کی طرف نہیں اٹھ سکی، جس بلندی پر پاکستانی پرچم 1947ء سے لہرا رہا ہے!
جناب بُراک اوباما مسلم اور مسیحی دنیا کے درمیان ’’مکالمے‘‘ کے ذریعے ’’اہداف‘‘ کے حصول کی راہ پر گامزن ہیں! ہم ان کی تقریر کا خیر مقدم، یا اس پر ’’خاموشی‘‘ اختیار کرنے کی صورت کا انتخاب اسی وقت کر سکیں گے جبکہ ہمیں علم ہو گا کہ ہمارے قومی اہداف کیا ہیں؟ صرف ’’سر بچاؤ‘‘ کوئی قومی ہدف، نہیں ہو سکتا! یہ قوم کی عارضی پسپائی، یا حکمت آمیز پسپائی تو ہو سکتی ہے، قومی منزل، نہیں قرار پا سکتی۔ ہم روٹی کپڑا اور مکان مہیا کرتے کرتے عوام کے پاؤں تلے کی زمین گھسیٹ اور سر پر چھاؤں کرتا آسمان بھی اڑا لینے میں کبھی عار محسوس نہیں کر پاتے! ہم کہتے کچھ ہیں؟ اور کرتے کچھ ہیں! لہٰذا دنیا ہم پر اعتبار اور اعتماد کرنا چھوڑ چکی ہے ۔ جہاں پالیسی کی بات آئے گی وہاں ’’کمیشن‘‘ بٹھانے اور کھانے کے اسباب بھی پیدا کر دیئے جائیں گے اور یوں کھوتا دوبارہ ’’کہوہ‘‘ میں ہو گا اور عوام محض پینے کا پانی حاصل کرنے کے لئے باہر نکالنے کے کام سے لگ جائیں گے۔!
ہمارا خیال ہے کہ اب ہمیں لوگوں کی نیتیں ٹٹولنے کی جگہ اپنا دل ٹٹولنے کی عادت ڈال ہی لینا چاہئے! اس سے ہمارے ساتھ ساتھ دنیا کا بھی بھلا ہو گا! ہم تو اب دعائیں دینے والوں کو بھی ڈانٹ پھٹکار کر گھر کے دروازے سے بھگا دیتے ہیں کہ ہمیں احساس ہو گیا ہے کہ دعائیں مستجاب نہیں رہیں! حالانکہ جناب امیر علیہ السلام فرماتے ہیں: لوگو! یہ نہ سوچو کہ اللہ دعا فوراً قبول کیوں نہیں کرتا؟ بلکہ شکر ادا کرو کہ اللہ سبحان وتعالیٰ ہمارے گناہوں کی سزا فوراً نہیں دیتا!‘‘ سبحان اللہ! سبحان اللہ!