غیر رسمی اور غیرقانونی تجارت – محصولات کا خزانہ
معاشیات اورتمباکو کی صنعت سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ غیر رسمی معیشت کا زیادہ گہرائی سے جائزہ لے۔ غیر قانونی تجارت محصولات کا ایک ایسا خزانہ ہے جسے ا ب تک استعمال نہیں گیا ہے اور یہ ضرورت کے اِس موقع پر ملک کے لیے حیات بخش ثابت ہو سکتا ہے۔حکومت پہلے ہی گردن تک غیر ملکی قرضو ں اور اقتصادی مسائل کی دلدل میں پھنسی ہوئی ہے جن کی مالیت اب 144 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے اور یوں غریب اور ضرورت مند لوگوں کے لیے بھی وسائل دستیاب نہیں ہیں۔ہم جس طرح مالی دباؤکا شکار ہیں، پاکستان اور قوم کو مزید فنڈز کی شدید ضرورت ہے۔ یہ وہ موقع ہے جب غیر استعمال شدہ ، غیر ٹیکس شدہ اور غیر قانونی شعبے پر ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے۔حال ہی میں غیر قانونی سگریٹ کی تجارت کے فروغ کے حوالے سے بہت بات چیت ہوتی رہی ہے۔ یہ انتہائی حیر ت انگیز بات ہے کہ اس شعبے سے حاصل ہونے والے 98 فیصدمحصولات صرف دو سگریٹ بنانے والے اداروں کی جانب سے ادا کیئے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں کام کرنے والی کم از کم دیگر 40 کمپنیاں انتہائی معمولی ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان اداروں کی اکثریت نافذ شدہ ڈیوٹیاں اور ٹیکس ادا نہیں کرتی ہے۔ ان کمپنیوں کے بعض برانڈز مارکیٹ میں محض 30-40 روپے کی انتہائی معمولی قیمت میں دستیاب ہیں جو غیر قانونی بھی ہیںاور حکومت کی جانب سے مقرر کردہ ٹیکس سے بھی کم ترہیں۔یہ کمپنیاں ہیلتھ وارننگ کے تقاضوں کو بھی پورا نہیں کرتی ہیں، کنزیومر پروموشنز استعمال کرتی ہیں اور نوجوانوں کو سگریٹ فروخت کرتی ہیں جو انتہائی تشویش کی بات ہے۔ایک اندازے کے مطابق، ٹیکس ادا نہ کرنے والی تمباکو مافیا کی وجہ سے حکومت پاکستان سالانہ 50 ارب روپے کے ٹیکسوں سے محروم رہتی ہے۔بعض رپورٹوں کے مطابق یہ اعداد و شمار اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ یہ مافیانہایت چالاکی سے کام کرتا ہے اور یہ ایک کھلا راز ہے کہ ان کی رسائی ملک کی قانون ساز اسمبلی تک ہے۔ سگریٹ بنانے والے یہ ادارے ، پاکستان میں اپنا کاروبار جاری رکھنے لیے قواعد و ضوابط کی قطعی پابندی نہیں کرتے ۔ ان میں سے بعض اداروں نے،فی الحقیقت، اپنی فیکٹریاں آزاد جموں کشمیر منتقل کر دی ہیں تاکہ کسی بھی قسم کی چھان بین سے بچ سکیں۔یہ ادارے دیگر جرائم کے علاوہ اسمگلنگ، ٹیکس چوری، کاپی رائٹ کی خلاف ورزی اورکم داموں پر فروخت جیسے جرائم میں ملوّث ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹیکس ادا کرنے والا تمباکو کا شعبہ مزید ٹیکسوں کی ادائیگی کی حدود تک پہنچ چکا ہے۔ مثال کے طور پر، گزشتہ 18 مہینوں کے دوران، ٹیکسوں میں متعدد بار اضافے سے توقع تھی کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں، سنہ 2019-20ء کے دوران ،27ارب روپے کے اضافی ٹیکس حاصل ہوں گے لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ فی الحقیقت ، ٹیکس ادا کرنے والے تمباکو کے شعبے سے،ٹیکس وصولی کا ہدف ،ایک بڑے مارجن کے ساتھ، سنہ 2019-20ء میں پورا نہیں ہو سکا اور توقع ہے کہ اس سال بھی ، اگر اس میں کمی نہ ہوئی تو کم از کم گزشتہ برس کے برابر ہی رہے گا۔بجٹ کا اعلان ہونے سے قبل، انڈسٹری کے نمائندوں نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ ٹیکس میں کسی بھی قسم کا اضافہ، ٹیکس ادا کرنے والے اداروں کے زوال میں تیزی کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ مارکیٹ میں ٹیکس ادا نہ کرنے والے اور سستے متبادل کی کثرت سے دستیابی ہے۔اس سے سرکاری محصولات میں استحکام کو طویل مدتی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جو اس وقت 110 ارب روپے سے 115 ارب روپے تک ہیں۔سرکاری محصولات کو پہنچنے والے نقصان سے قطع نظر، تمباکو کی غیر قانونی تجارت کے کاروبار اور انسانی صحت پر منفی اثرا ت بھی ہیں جو ملک کے سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے خطرہ ہیں۔ اس چیلنج سے نمٹنے سے نہ صرف اقتصادی اور صحت کو فائدہ پہنچے گا بلکہ منظم جرائم پیشہ افراد کو ہونے والی فنڈنگ کے ذرائع کو بھی نقصان پہنچے گا۔