چین بھارت کشیدگی:جمہوریت آمریت کا یدھ
یہ جمہوریت اور آمریت کا یدھ ہے دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت بھارت چین کی کیمونسٹ پارٹی سے پنجہ آزمائی کی کوشش ناکام کر رہا ہے۔چین اور بھارت میں کوئی جنگ نہیں ہونے جارہی! بھارت کی اجتماعی دانش ہے جو مرنے سے زیادہ جینے کو ترجیح دینے کی قائل ہے۔ جس نے یہ اصولی فیصلہ کرلیا ہے کہ ایسی جنگ کا کسی صورت حصہ نہ بنا جائے جس میں سرمایہ کاری کی گنگا جمنا کا بہائو رک جائے۔۔ خواہ اس کے لئے امریکہ بہادر کتنی ہی مدھر دھن بجائے لیکن ’’سَت سلام گنگا‘‘ کا اصول اپنائیں۔البتہ چانکیائی ذہن استعمال کرتے ہوئے بھارت نے چین کے خلاف پراپیگنڈہ کا ہتھیار اٹھالیا ہے۔ ’’چین دنیا کی سب سے بڑی آمریت‘‘ اور ’’بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کا چورن بیچا جارہا ہے یعنی یہ جنگ متنازعہ خطے سے نکل کر آمریت اور جمہوریت کی جنگ بنائی جارہی ہے۔جنت مکانی مرشدم مجید نظامی فرمایاکرتے تھے
’’چمڑی جائے پَر دَمڑی نہ جائے‘‘ بنیے کا لکھا پڑھا قاعدہ ہے، یہ اس کی فطرت ہے اس لئے تجارت سے پہلے مسئلہ کشمیر حل کریں تجارت ہوتی رہے گی لیکن سابق حکمران خاندان میں میاں شریف مرحوم سے لے کر مفرور حسین نواز تک سب بھارت سے تجارت کی پینگیں بڑھانے کے گیت گاتے تھے رہے۔ جناب نواز شریف تو ان کے کیا کہنے کہ وہ تو فرمایا کرتے تھے ‘‘بس ایک لکیر کا فرق ہے وہ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور ہم بھی یہی اڑاتے ہیں۔ یہ نادر شاہی فرمان بھی لغو اور غلط تھا لیکن شامی و کوفی اس پر سر دھنتے تھے۔
عزت نا آبرو سب سے پہلے تجارت کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے ہندو بنیا تجارت، تجارت کا راگ الاپ رہا ہے۔ بھارتاسی پر چلتے ہوئے چین کے مقابلے میں اپنی حکمت عملی تشکیل دے رہا ہے۔ بھارت کی ریڑھ کی ہڈی اس کی براہ راست ہونے والی غیرملکی سرمایہ کاری ہے۔ ’’لکشمی‘‘ کے ’’پجاریوں‘‘ کا اعتقاد ہے کہ دَھن دولت آنا بند ہوجائے تو یہ ’’ابھشگن‘‘ یا بدقسمتی کی علامت ہے، اس کا مطلب ہے کہ ’’دیوی‘‘ ناراض ہوگئی اور اب ان پر لکشمی برسنا بند ہوگئی۔
عالمی مہاجنوں کے پچکارنے کے باوجود بھارتی بنئے کسی جھانسے میں آنے کو تیار نہیں۔ وہ ’’چڑھ جا سولی بیٹا رام بھلی کرے گا‘‘ کا مقولہ کہتے ضرور ہیں لیکن اتنے بھولے ہرگز نہیں کہ امریکی ڈگڈگی پر بے سدھ بندر کی طرح فریفتہ ہوجائیں۔ جان نچھاور کرنا ویسے بھی دولت پرستوں کے بس کی بات نہیں۔ ہندومہاجن کی طے شدہ پالیسی ہے کہ جنگ ’’مہایْدھ‘‘ کا ’’خطرہ‘‘ صرف اسی صورت مول لیاجائے اگر اس سے سرمائے کی فراہمی نہ رْکے۔ اگر سرمائے کا نَل سوکھ جانے کاذرا بھر بھی خدشہ ہوتو اس ’’چِتا‘‘ سے دور ہی رہا جائے۔
اسی اجتماعی بھارتی دانش کے بارے میں تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ خلیج کی جنگ میں ہندوستان نے اپنا دامن آگ کے شعلوں سے بچایاتھا۔ اب امریکہ ان کو بھلے کتنے ہی سبز باغ دکھائے، کمر ٹھونکے یا بحری بیڑے بھجوائے لیکن بھارتی نگاہ اپنے مفادات سے ذرا سا بھی ہٹنے پر آمادہ نہیں۔
موذی کو ذرا وہم نہیں کہ وہ چین کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ خود کوہ ہمالیہ کی طرح سربلند اور باہمت چینیوں کے سردار شی جن پنگ نے دوٹوک انداز میں مبرہن کردیا ہے کہ بھارت جنگ کرکے چین سے جیت نہیں سکتا۔ چین کے لئے جنگ اتنا بڑا نقصان کا سودا نہیں لیکن اس کے نتیجے میں بنئے کی دکان ہمیشہ کے لئے بند ضرور ہوسکتی ہے لہذا یہ خطرہ وہ کسی صورت لینے پر تیار نہیں۔ عسکری ماہرین کے نزدیک بھارت بہت پاپڑ بھی بیلے تو چین کو فوجی اعتبار سے تباہ نہیں کرسکتا اور نہ ہی کوئی ایسا مہلک وار کرسکتا ہے جس میں آبادی کا بڑا نقصان ہوسکتا ہو۔۔ البتہ چین کا ایک ہی کاری وار کلکتہ، بمبئی، نئی دہلی سمیت چند بڑے شہروں کو ایسا زخمی کرسکتا ہے جس سے بھارت ’’چِتاَ‘‘ میں تبدیل ہوجائے گا۔
اس تجزیہ کی تصدیق یہ اطلاعات بھی کررہی ہیں جس میں بھارتی فوج نے اجیت کمار ڈوول کو فوجی تنصیبات اور اس سارے معاملے میں دور رہنے کی سخت تاکید کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی ناک پر ’’پرنا لپیٹے‘‘ ہاتھ جوڑے ٹھمک ٹھمک جب لداخ میں چل رہا تھا تو اس کے ساتھ کوئی ڈوول وغیرہ نہیں تھا۔ ذرائع ابلاغ کی خبریں یہاں تک بیان کررہی ہیں کہ ڈوول سے بھارتی فوج کی ناپسندیدگی انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔ فوجیوں نے کہہ دیا تھا کہ اگر ان کی بات نہ سنی گئی تو ڈوول کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ اسی لئے کسی اجلاس میں یہ شرپسند کردار قریب نہ آیا۔ موذی کی ’’ہیکڑی‘‘ بھی یہاں نکل گئی اور اس نے ڈوول کو ’’پرے سے پراں‘‘ رکھنے میں ہی عافیت جانی۔ (جاری)