مضبوط مرکز بمقابلہ صوبائی خودمختاری!
میاں صاحب کو بھی بعدازاں اپنے ہی تجویز کردہ نسخے کی کڑوی گولی نگلنا پڑی۔ انہوں نے جب بطور چیف سیکرٹری پرویز مسعود کو نامزد کیا تو وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور وٹو نے اس کا داخلہ بند کر دیا۔ نصف شب کو پرویز مسعود کو چیف جسٹس محبوب صاحب سے ضمانت قبل از گرفتاری کروانی پڑی۔ یہی حشر آئی جی چیمہ کا ہوا، وہ بھی سر پر پائوں رکھ کر بھاگ گیا۔
(4) اس سے بھی بڑا مسئلہ مالیاتی خودمختاری کاتھا، صوبوں کا استدلال یہ تھا کہ ٹیکس ان کے علاقوں سے اکٹھا ہوتا ہے لیکن سب رقم مرکز کی جیب میں چلی جاتی ہے، انہیں امور حکومت چلانے کیلئے جو فنڈز درکار ہوتے ہیں، وہ مل نہیں پاتے۔ جو تھوڑی بہت رقم ملتی ہے وہ بھی کڑی شرائط کے ساتھ۔ مرکز انہیں اپنے اشاروں پر نچوانا چاہتا ہے کیونکہ پرانی کہاوت ہے کہ He who pays the piper has also the right to call for the tune.
(5) خوش قسمتی سے ایک ایسا مرحلہ آیا جب دو بڑی پارٹیوں کے مفادات یکجا ہوگئے، سیاسی بندربانٹ۔ میاں نوازشریف کو تیسری بار وزیراعظم بننا تھا اور زرداری کو سندھ میں مستقل قدم جمانے تھے۔ دونوں کے پاس مطلوبہ دوتہائی اکثریت تھی۔ چنانچہ ایسی ترمیم کی گئی جس کی رو سے فنڈز کا 57فیصد حصہ صوبوں کو دے دیا گیا۔ 10 سال تک یہ نظام اس لئے چلتا رہا کہ سندھ پیپلزپارٹی کے پاس تھا، پنجاب میں برادر خورد سب طبل و علم کے مالک و مختار تھے۔ مولانا فضل الرحمن کے بھی حلوے مانڈے کا بندوبست ہوگیا تھا۔
(6)اب پی ٹی آئی حکومت کو احساس ہوا ہے کہ جو رقم وفاق کو ملتی ہے، وہ اس قدر قلیل ہے کہ اس سے حکومت چلانا مشکل ہو رہا ہے۔ یہ مرکزی حکومت کا جینوئن مسئلہ ہے لیکن صوبوں سے اختیار واپس لینا مشکل ہوگا۔ وجہ؟آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی شخص، ادارے یا حکومت نے ہاتھ آئی ہوئی نعمت کو بغیر کسی سمجھوتے کے واپس کر دیا ہو۔ بحث کی خاطر یہ سمجھ لیں کہ اس صورت میں عوام انہیں نہیں بخشیں گے۔ ایک نہ ختم ہونے والا پراپیگنڈا شروع ہو جائے گاکہ صوبائی حکومت نے لوگوں کو مرکز کے ہاتھوں بیچ دیا ہے گویا جس مقصد کیلئے ترمیم کی گئی تھی، وہ مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ اس کارخیر میں پی ٹی آئی خود پیش پیش ہوگی، اسے اندرون سندھ قدم جمانے کیلئے کوئی نہ کوئی جواز تو چاہئے۔
(7)اب ہوگا کیا؟ It is a million dollar question، بظاہر دو طریقے ہیں۔ (1) طاقت کے ذریعے یا منت سماجت، صلح صفائی اور کچھ لو، کچھ دو کے فارمولے پر عمل پیرا ہو کر بابر اعوان ٹائپ زیرک سیاستدان تیسرا مشورہ بھی دے سکتے ہیں۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں پھوٹ ڈلوا دو، غلط فہمیاں پیدا کرو اور چونکہ ن لیگ میں کسی حد تک شکست وریخت کا عمل شروع ہوچکا ہے تو اس خلیج کو مزید وسیع کر دو اگر میاں شہبازشریف فارورڈ بلاک بنا سکتا تھا تو پی ٹی آئی ایسا کیوں نہیں کرسکتی۔ جب ایک چراگاہ میں گھاس خشک ہو جائے تو گھوڑے سرسبز چارے کیلئے دوسری طرف کا رخ اختیار کرتے ہیں پھر ہمارے گھوڑے تو ایسے ٹرینڈ ہیں کہ زیادہ پچکارنا بھی نہیں پڑتا، خودبخود ہنہناتے ہوئے چلے آتے ہیں۔
جہاں بکنے کو ہر ایک سے ایک آگے ہو
ایسے میلے میں خریدار کو کیا بولنا ہے
(8)کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ طاقت والا فارمولا کچھ زیادہ کارگر نہیں ہوا۔ دونوں پارٹیوں کی ہائی کمان سمجھتی ہے کہ ان کے ساتھ جو ہونا تھا، وہ ہوگیا ہے۔ قید وبند کی جو صعوبتیں برداشت کرنی تھیں، سو کرلی ہیں۔ Worst is over.۔ اب رہ گئی دوسری بات صلح صفائی، کچھ لو کچھ دو تو یہ خان صاحب کے مزاج کے خلاف ہے۔ ہاتھ ملانا تو درکفار وہ مخالفین کی طرف دیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔ اس دور ابتلا میں بھی انہوں نے نہ تو اپنی بندوقوں کے رخ موڑے ہیں ،نہ ٹریگر سے انگلی اٹھائی ہے۔ گھوڑوں کی خرید و فروخت بھی معروضی حالات میں ممکن دکھائی نہیں دیتی، کسی ایک پارٹی کو ساتھ ملانے سے بھی شاید دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہوسکے۔
ان حالات میں 18ویں ترمیم کو چھیڑنے میں کیا مصلحت کارفرما ہوسکتی ہے؟ سیاسی پنڈت، لال بجھکڑ اور خودساختہ بزرجمہر سر کھجلا رہے ہیں لیکن ڈور کا سرا نہیں مل رہا۔ اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا لیکن اس ترمیم کی بحث بے مقصد نہیں ہوسکتی۔ یہ فرد واحد نہیں بلکہ پوری پارٹی کا فیصلہ ہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ (ختم شد)