مادرِ ملتؒ اور روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘
پاکستان کے لیے جدوجہد سے پہلے اور بعد میں ’’نوائے وقت‘‘ کا کردار اور ریکارڈ آپ سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔آپ نے اس جنگ میں بھرپور حصہ لیا اور آپ اس سے لاعلم نہیں ہوں گی۔ میں ایک بار پھر عرض کروں گاکہ جب تک نوائے وقت موجودہ ہاتھوں میں ہے‘ یہ اسی طرح وفاداری سے پاکستان کے مقاصد کے لیے کام کرتا رہے گا۔
اس سلسلے میں آپ جو قدم اٹھانے کا سوچ رہی ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ وہ بالکل ہمارے مقصد جیسا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں دو روزناموں کا اجرا‘ دوہری کوششیں کرنے والی بات ہوگی۔
اگر ہماری یہ اطلاعات صحیح ہیں کہ آپ بھی کراچی سے ایک اُردو روزنامہ نکالنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں تو ہم آپ کی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے مقابلے میں آپ کی کوششیں زیادہ کامیاب ہوں گی اور اس کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ ہمارے سمیت‘ اس پروگرام کی کامیابی کے لیے کوئی اور بہتر آدمی ہوگا۔ جس اخبار کو آپ کی نیک خواہشات اور سرپرستی حاصل ہوگی اس کی کامیابی یقینی ہے۔
ان حقائق کی روشنی میں ہم اپنی کوششیں اور پروگرام سے دستبردار ہونے کو تیار ہیں۔ ہمارے انتظامات مکمل ہیں اور انہیںآپ کے سپرد کرنے میں ہمیں انتہائی خوشی اور فخر محسوس ہو گا۔ آپ انہیں اپنی مرضی سے استعمال کریں۔ اس کے علاوہ ہم اس سلسلہ میں ہر قسم کی مدد‘ تعاون اور کام کرنے کے لیے آپ کو ہر وقت دستیاب ہوں گے۔
دوسری جانب اگر آپ سمجھتی ہیں کہ ہماری سرگرم صحافت یا آپ کے ساتھ مشترکہ کوششوں سے بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں تو ازراہ کرم اس سلسلے میں ہمیں یاد کرنے میں رتی بھر ہچکچاہٹ نہ کریں یا اگر آپ ہمیں اپنی سرپرستی اور نیک خواہشات سے نوازتی ہیں تو ہم‘ آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ہمارے لیے اس سے بڑی کوئی خوشی اور حوصلہ افزائی نہیںہوگی۔اگر اس سلسلے میں آپ کوئی بات چیت کرنا ضروری سمجھتی ہیں تو میں‘ کراچی آنے کے لیے تیار ہوں۔ دریں اثنا جب تک آپ کی طرف سے کوئی جواب نہیں آتا‘ ہم اپنے کراچی ایڈیشن کی اشاعت مؤخر کررہے ہیں۔
نیک تمنائوں کے ساتھ
آپ کا مخلص (حمید نظامی)
مادرملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے حمید نظامی پر مکمل اعتماد کرتے ہوئے الگ اخبار نکالنے کا ارادہ ترک کر دیا اور آخر دم تک نوائے وقت کی سرپرستی کرتی رہیں۔
مجید نظامی کا مشن
حمید نظامی صاحب کی وفات کے بعد ان کے چھوٹے بھائی جناب مجید نظامی نے ’’نوائے وقت‘‘ کی ادارت سنبھالی جو خود بھی تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے بھائی کے مشن کو ایک نئے ولولے اور عزم کے ساتھ آگے بڑھایا۔ خداتعالیٰ نے انہیں حمید نظامی مرحوم کے مقابلے میں حکمرانوں سے معرکہ آرائی کے زیادہ مواقع دئیے ہیں جس میں وہ ساری زندگی کامیابی سے سرخرو ہو تے رہے۔ جناب مجید نظامی نے نہ صرف ادارہ ’’نوائے وقت‘‘ کو وسعت دی بلکہ اس کے نظریاتی تشخص کو مستحکم کرتے ہوئے اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے۔ فکرِ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ و مادرِ ملتؒ کی حیات و خدمات کو انہوں نے نہ صرف اپنے لیے بلکہ پوری قوم کے لیے مشعل راہ بنایا۔ 1962 سے مارچ 1969تک یعنی ایوب خان کے اقتدار سے الگ ہوجانے تک جناب مجید نظامی نے فوجی آمریت کا قلعہ پاش پاش کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔’’ پاکستان ڈائجسٹ‘‘ اسلام آباد کو انٹرویو دیتے ہوئے جناب مجید نظامی بیان کرتے ہیں۔ ’’یہ بہت مشکل اور ابتلا کا دور تھا۔ سیاسی بھی اور اقتصادی بھی۔میں آٹھ سال تک ملک سے باہر رہا تھا۔ یہ نہیں کہ معاملات سے میری واقفیت نہیں تھی لیکن عملی طور پر آئوٹ آف ٹچ تھا۔ حمید نظامی صاحب کی دوستیاں بھی تھیں اور دشمنیاں بھی۔میں نے کوشش یہی کی کہ جو ان کے دوست ہیں ان سے دوستی لگائی جائے اور جو مخالفین ہیں ان کے ساتھ اسی طرح کا رویہ اختیار کیاجائے۔‘‘
فیلڈ مارشل ایوب خان سے پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے جناب مجید نظامی بتاتے ہیں ۔’’ایوب خان سے میری پہلی ملاقات کراچی میں گورنر ہائوس میں ہوئی۔ یہ مارشل لا کا دور تھا۔وہاں انہوں نے ایڈیٹرز کو بلوایا ہوا تھا۔ ہم آٹھ دس ایڈیٹر تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے آہستہ آہستہ گرم ہونا شروع کیا اور کہنے لگے کہ ’’آپ لوگوں کو اپنے گربیان میں منہ ڈالنا چاہیے اور آپ لوگوں کو شرم آنی چاہیے‘‘ میں نے کہا ’’جان کی امان ہو فیلڈ مارشل صاحب‘‘میں نے انہیں ٹوکاتھا۔ وہ روانی میں تھے،وہ مسکرائے اور کہنے لگے کہ’’کہیں‘‘ ۔وہ صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے اور ہم کرسیوں پر ۔جس طرح استاد کلاس لیتا ہے‘ اس طرح کا ماحول تھا‘ میں نے کہا ’’جب میں اپنے گریبان میں منہ ڈالتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے‘ شرم کس بات پر آنی چاہیے؟ ‘‘کہنے لگیــــ’’ میرا اشارہ آپ کی طرف نہیں تھا۔‘‘ میرے ساتھ الطاف حسین اور فخر ماتری صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے میرا کوٹ پکڑ کر مجھے بٹھانے کی کوشش کی لیکن میں نے کہا کہ فیلڈ مارشل صاحب مجھے جان کی امان دے چکے ہیں۔ میں نے فیلڈ مارشل صاحب سے کہا کہ آئندہ آپ کا اشارہ جس کی طرف ہو آپ اس کا نام لیا کریں اور اسے کہا کریں کہ’’اسے شرم آنی چاہیے کہ اس نے یہ کیا‘‘ یہ ایوب خان سے میری پہلی ملاقات تھی۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کئی اخباری اداروں کو سرکاری کنٹرول میں لے چکے تھے لیکن ’’نوائے وقت‘‘ کا توڑ نہیں کیا جاسکا۔ 1963ء میں مغربی پاکستان پر یس اینڈ پبلی کشینز آرڈیننس جاری کرکے اخبارات پر نئی پابندیاں لگائی گئیں اور اخبارات کے نئے ڈیکلریشنز کا اجرا مشکل ترین بنا دیا گیا۔ پریس ایڈوائس کا سلسلہ تیز کر دیا گیا لیکن ’’نوائے وقت‘‘ نے سرکاری پابندیاں قبول نہیں کیں اور جمہوریت کی مکمل بحالی کا علم بلند کئے رکھا۔
قائداعظمؒ کے مشن کو لے کر جس نیک نیتی‘ دیانت داری اور ثابت قدمی سے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ نے اپنا سفر جاری رکھا ہے اس قدر خلوص اور سچائی کا مظاہرہ قائداعظمؒ کی جماعت مسلم لیگ بھی نہیں کر سکی ۔ روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ نے پاکستان کا سیاسی میدان کبھی بھی شخصی آمروں کیلئے خالی نہیں چھوڑا۔ اس نے خاندانی سیاستدانوں ،طاقتور فوجی اور سول حاکموں کے مقابلے میں درمیانے اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے مخلص اور جمہوریت پسند نوجوانوں کو سیاسی میدان میں متعارف کرایا۔ اس سے یہ ہوا کہ غیر سیاسی حکمرانوں اور پرانے سیاسی گھرانوں کے مقابلے میںمڈل کلاس کے سیاستدانوں کی ایک فوج تیار ہو گئی جس نے ملکی اقتدار کو کلی طورپر بالادست طبقوںکے ہاتھوں میں جانے سے بچالیا۔ یہ جو بڑے بڑے سیاستدان آج نظر آتے ہیں انہیں یہاں تک پہنچانے میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ کا ہاتھ ہے۔ (جاری)