منگل ‘ 15؍ذیقعد 1441 ھ‘ 7؍جولائی 2020ء
ملک میں بجلی کی کوئی کمی نہیں‘ پاور ڈویژن
تو پھر یہ سپلائی کی ابتر صورتحال کیوں ہے۔ 8 سے 12 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نے زرداری دور کی یاد تازہ کر دی ہے۔ ملک بھر میں بجلی کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ جس میں ’’برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر‘‘ کے مصداق بھاری بھر کم بل ہر ماہ نہایت پابندی سے آتے ہیں جو جمع کرانا لازم ہے۔ بجلی آئے نہ آئے بل ضرور آتا ہے۔ بجلی کی بندش سے متاثر لوگ سڑکوں پر شب بسری کرنے پر مجبور ہیں۔ پاور ڈویژن کی مہربانی سے چلو ایک اچھا کام یہ ہوا ہے کہ ہماری قدیم ثقافت کی علامت پنکھا ،جی ہاں! دستی پنکھا پھر ہماری زندگیوں میں لوٹ آیا ہے اور دستی پنکھے بنانے والوں کا کاروبار چمک اٹھا۔ لوگوں کا کیا آہستہ آہستہ وہ پھر لوڈشیڈنگ کے عادی ہو جائیں گے۔ حکومت کے خلاف شورشرابا کرنا عوام اور اپوزیشن دونوں کی عادت ہے۔ وہ کرتے رہیں گے۔ حکومت نے کونسا لوڈشیڈنگ کیخلاف واویلا سن کر ہوش میں آنا ہے۔ یہ وزارت بجلی و پانی کا کام ہے۔ جس کے بقول بجلی کی کمی نہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر بجلی جاتی کہاں ہے بے شک…؎
آوارگی میں حد سے گزر جانا چاہیے
لیکن کبھی کبھار تو گھر جانا چاہیے
بجلی کو یا پاورڈویژن کی شرم کرنی چاہیے اور گھر سے باہر اتنی تاخیر تک رہنے کی عادت اچھی نہیں ہوتی۔ ایسا نہ ہو کہ گرمی کے ستائے لوگ پاور ڈویژن اور بجلی کو غیرت یا کاروکاری کے نام پر ختم کرنے کی ٹھان لیں۔
٭٭٭٭٭
انٹرویو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا‘ گرانٹ فلاور‘ یونس خان نے معذرت قبول کر لی
ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک پرانے معاملے پر بھد اڑانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ میڈیاپر یہ خبر جس طرح پیش کی گئی اس سے ظاہر ہے یونس خان کو برا تو لگا ہو گا۔ مگر آفرین ہے گرانٹ فلاور پر بھی جنہوں نے اس حوالے سے فوری معذرت جاری کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بیان توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔ امید ہے اب یونس خان کی جو دل شکنی ہوئی وہ دور ہو جائے گی۔ یوں یونس خان پر جو ڈرامائی کریکٹر ہونے کا شبہ ہونے لگا تھا وہ بھی پروان چڑھنے سے پہلے ہی دم توڑ جائے گا۔ ہمارے خان بھائی ویسے بھی بات بات پراسلحہ نکالنے کے حوالے سے مشہور ہیں وہ بات بعد میں کرتے ہیں گولی پہلے چلاتے ہیں۔اب رات گئی بات گئی۔ معاملہ رفع دفع سمجھا جانا چاہیے۔خبر نشر کرنے والے بھی اگر خبر چلانے سے پہلے اس کے حقائق معلوم کر لیا کریں تو کسی بھی بدمزگی اور شرمندگی سے بچا جا سکتا ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں ’’کوا کان لے اڑا‘‘ سن کر لوگ کان دیکھنے کی بجائے کوے کے پیچھے دوڑنا پسند کرتے ہیں۔ ویسے اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اچھے سپورٹس مین میں واقعی سپورٹس مین شپ موجود ہوتی ہے اور وہ ہر معاملے میں اس کا مظاہرہ کر کے لوگوں کے دل جیت لیتا ہے۔ اس لیے گرانٹ فلاور نے کھلے دل سے معذرت کر لی جو یونس خان نے بھی کھلے دل سے قبول کر لی۔
فواد چودھری کا برطانوی حکومت سے الطاف حسین اور نواز شریف کی حوالگی کا مطالبہ
گرچہ یہ مطالبہ درست ہے مگر کیا کریں برطانیہ کا اپنا قانون ہے۔ وہ کسی کی فرمائش پر اپنے ہاں مقیم کسی شخص کو پکڑ کر اس کے حوالے نہیں کرتے۔ ہاں اگر بندہ مجرم ہے تو بات اور ہے۔ اب اگر حکومت پاکستان یہ مطالبہ کرے تو اس میں زیادہ وزن ہو سکتا ہے۔ الطاف حسین ہوں یا نواز شریف دونوں بھاری وزن والے ہیں۔ الطاف کا تو یہ حال ہے کہ ان سے اپنا اور اپنے گناہوں کا وزن ہی سنبھالا نہیں جاتا۔ وہ تو پاپوں گٹھڑی بن چکے ہیں۔ سچ کہتے ہیں گناہ اور تکبر کا بوجھ انسان کو خود اُٹھانا پڑتا ہے۔ انسان انہی کے بوجھ تلے دب کر کچلا جاتا ہے۔ ویسے فواد چودھری کو بانی ایم کیو ایم کے ساتھ مسلم لیگی رہنما نواز شریف کا تذکرہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ کیونکہ مالی معاملات کے ملزم اور غداری کے مجرم میں بہت فرق ہوتا ہے۔ باقی اپنی اپنی سوچ ہے۔ اگر کسی کو دونوں یکساں ملزم یا مجرم نظر آتے ہیں تو ہم کسی کو عینک کا نمبر بدلنے کا مشورہ نہیں دے سکتے۔ اب معلوم نہیں یہ مطالبہ فواد جی نے باضابطہ کیا ہے یا صرف اخبار کی سرخی بنانے کے لئے کیا ہے۔ دیکھتے ہیں برطانوی حکومت کیا ردعمل دیتی ہے۔ اگر برطانوی حکومت نے کوئی ایکشن لینا ہوتا تو وہ کب کا لے چکی ہوتی۔ ویسے ان دونوں کے علاوہ بھی لندن میں یعنی برطانیہ میں بہت سے کالے پیلے نیلے دھندے والے پاکستانی بھی براجمان ہیں۔ کیا فواد چودھری ان کی حوالگی کا بھی مطالبہ کریں گے یا درگزر سے کام لیں گے۔
٭٭٭٭٭
ویتنام میں سونے سے بنا ہوٹل اور انڈونیشیا میں چاندی کا مجسمہ بنے فقیر
جی ہاں یہ دنیا ہے ہی عجائبات کا مجموعہ ۔ وہی …؎
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں
والے مناظر جا بجا قدم قدم پر بکھرے نظر آتے ہیں۔ عرب کے بادشاہ اور امرا تو سونے کے محلات میںرہتے ہی ہیں۔ سونے اور جواہرات سے مزین برتنوں میں کھاتے پیتے ہیں۔ اب ان کے دیکھا دیکھی ویتنام میں ایک ایسا ہوٹل بنایا گیا ہے جس پر مکمل سونے کا کام ہوا ہے۔ کراکری ، واش روم، دیواروں، دروازوں اور کھڑکیوں پر سونا چڑھا ہوا ہے۔ دیکھنے میں اس ہوٹل پر کسی عرب بادشاہ کے محل کا گماں ہوتا ہے۔ ویتنام کوئی خوشحال ترقی یافتہ ملک نہیں مگر سیاحت کو فروغ دینے کے لئے اس نے حقیقت میں سونے کی لنکا بنا دی ہے۔ اس کے برعکس انڈونیشیا میں آج کل سڑکوں پر چاندی میں رنگے چاندی کے مجسمے بنے فقیروں کا راج ہے۔ یہ ماڈرن فقیرچاندی کے رنگ میں پینٹ ہوکر سڑکوں پر بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ معلوم نہیں وہ اس طرح اپنی شناخت چھپانا چاہتے ہیں یا اپنی امارت ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ ویسے کمی تو ہمارے ملک میں بھی فقیروں کی نہیںمگر وہ اس طرح نمود و نمائش کر کے اپنی دولت ظاہر کرنا پسند نہیں کرتے۔ انکساری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ پوش علاقوں میں رہتے ہیں اور اعلیٰ گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔