ؑٓعام طور پر جمہوری جدو جہد کا کریڈٹ بائیں بازو کی پارٹیاں لیتی ہیں، لیکن قیام پاکستان کے بعد پہلی دستوری آزمائش آئی تو جماعت اسلامی نے اس کے لیے جیلیں بھی کاٹیں اور میاں طفیل محمد نے اس کے لیے عدالتی جنگ بھی لڑی، اس کی تفصیل انہوں نے اپنی خود نوشت میں یوں بیان کی ہے۔وزیر اعظم لیاقت علی خاں نے ستمبر انیس سو اکاون میں مجلس دستور ساز میں سیکولر اور غیر جمہوری بنیادوں پر بی۔ پی۔ سی رپورٹ عوامی احتجاج پر بلا حیل و حجت چند روز میں واپس لینے کے ساتھ ساتھ اسمبلی میں قرار داد مقاصد پیش کرتے ہوئے اسلامی نظامِ زندگی پر بے مثال تقریر فرمائی تھی۔ اُنہیں سولہ اکتوبر انیس سو اکاون میں لیاقت باغ راولپنڈی میں عظیم الشان جلسہ میں دورانِ خطاب نامعلوم شخص نے گولیاں مار کر شہید کر دیا۔ جماعتِ اسلامی نے قیامِ پاکستان کے بعد اسلامی دستور کیلئے جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا حکومت کو اُنکے اس مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے بنیادی اصولوں کی کمیٹی بی۔پی۔سی رپورٹ میں ترمیم کرکے آئین کے جمہوری اور اسلامی کردار کو بحال کرنا پڑا۔ ملک غلام محمد گورنر جنرل پاکستان اپنے وزیر اعظم خواجہ نظام الدین کے جماعتِ اسلامی کے مطالبہ کے سامنے اس طرح جُھک جانے سے سخت ناراض ہو گئے چنانچہ حکومت پنجاب نے ختمِ نبوت کے نام سے گرفتاریوں کا آغاز کیا ہزاروں لوگوں کی گرفتاریوں کے بعد تحریک زورپکڑر گئی۔ فروری انیس سو ترپن میں لاہور کارپوریشن کی حدود میں مارشل لاء کا نفاذ کر دیا گیا۔ دراصل تئیس دسمبر انیس سو باون میں لاہور کارپوریشن کی دستوری اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ پیش کر دینے کے بعد اسلامی ریاست کے بائیس اصول مرتب کرنے والے اکتیس جید علماء کا جنوری انیس سو ترپن میں دوسرا اجلاس منعقد ہوا اس میں دستوری اصولوں کی کمیٹی کی رپورٹ میں اسلامی نقطۂ نظر کے مطلوب ترمیمات بالاتفاق مرتب کر نے کا سہرا مولانا مودودی ہی کا تھا۔ چنانچہ انہیں کیفر کردار تک پہنچانے اور سزا دینے کیلئے حکومت نے بیس مارچ انیس سو 53 کو مولانا مودودی، مولانا امین احسن اصلاحی ، قیّم جماعت میاں طفیل محمد سمیت جماعت اسلامی کے مرکزی سٹاف سمیت لاہور کارپوریشن کی حدود میں موجود ساٹھ کے قریب نمایاں افراد کو مارشل لاء ریگولیشن اور سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے حوالہ ٔ زنداں کر دیا گیا۔ بعد ازاں مولانا مودودی کی مقرر کردہ ڈیڈ لائن کے اندر اُن کے مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم پاکستان کی صدارت میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی نے نئی رپورٹ مرتب کر کے بائیس دسمبر انیس سو53 کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں پیش کر دی۔ انیس سو چونء کا دستور اسی رپورٹ کی بنیاد پر بنا لیکن بد قسمتی سے اسکو دن کی روشنی دیکھنا نصیب نہ ہوسکی۔ بارہ اپریل انیس سو باون کو خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل غلام محمد نے برخواست کر دیا حالانکہ چند روز بعد پہلے ہی پارلیمنٹ خواجہ ناظم الدین کا پیش کردہ بجٹ پاس کر کے ان پر اعتماد کا اظہار کر چکی تھی۔ خواجہ ناظم الدین کی جگہ گورنر جنرل نے اپنا ایک پسندیدہ شخص محمد علی بوگرا جو امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے کو بلا کر وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز کر دیا۔ گورنر جنرل غلام محمد اس کوشش میں تھے کہ ملک بھر سے اپنے زیر اثر دانشوروں، وکلائ، علمائ، پروفیسروں اور دیگر تعلیم یافتہ حضرات پر مشتمل کنونشن منعقد کر کے ملک کیلئے حسبِ منشاء دستور پاس کرا کے ملک میں نافذ کر دیں لیکن وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بالآخر مجبور ہوکر محمد علی بوگرا وزیراعظم پاکستان کو خواجہ ناظم الدین کی جگہ بائیس دسمبر انیس سو باون کو مجلسِ دستور ساز میں پیش کردہ رپورٹ کی روشنی میں ڈھائی تین ماہ میں ستمبر انیس سو چون کے آختر تک دستور سازی کا کام مکمل کر کے اکتوبر انیس سو54 کے اوائل میں اعلان فرمایا کہ انشاء اللہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی سالگرہ کے موقع پر قوم کو اسلامی دستور کا تحفہ پیش کر دوں گا لیکن بوگرا صاحب کے اس اعلان پر گورنر جنرل غلام محمد غصہ سے بے قابو ہو کر چوبیس اکتوبر انیس سو 54 کو قائداعظم ؒ کی سالگرہ سے دو ماہ قبل ہی جناب محمد علی بوگرا کی حکومت سمیت مجلسِ دستور ساز پاکستان اور پارلیمنٹ سب کو بیک جنبش قلم برخواست کر دیا۔ یاد رہے کہ قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں دستور سازی کے لئے جو منتخب مجلسِ دستور ساز پاکستانی علاقوں سے منتخب ہونے والے ارکان پر مشتمل بنائی گئی تھی وہ خود مختارتھی اپنی اس حیثیت میں جو دستور یا دستوری حالات یا قانون یہ بناتے وہ اس کے اپنے صدر اور چیئر مین کے دستخطوں سے آئین و قانون بن جاتا تھا لیکن جو کام یا قانون سازی یہ پارلیمنٹ کی حیثیت سے کرتے اسکے قطعی اور قانونی حیثیت اختیار کرنے کیلئے ملکۂ برطانیہ کے مقرر کردہ گورنر جنرل کی منظوری اور دستخط ضروری تھے۔اگرچہ آزاد پاکستان کے لئے کرنسی کے اجراء کا قانون اسکے لئے اسٹیٹ بنک کے قیام کا قانون مارشل لاء کے تحت کیئے گئے اقدامات کو مارشل لاء اُٹھ جانے کے بعد بھی باقی رکھنے کیلئے ایڈینٹٹی ایکٹ وغیرہ یہ سب بھی دستور سازی کی حیثیت سے پاس کیے گئے اور ملک کے عام قوانین میں ترمیم و اضافہ کے قوانین یہ بھی پارلیمنٹ کی حیثیت سے کرتی تھی۔ اس لیے کہ جب تک پاکستان کی ریاست سے اپنی دستور ساز اسمبلی کے ذریعے اپنے آزاد پاکستان کا دستور کا نفاذ خود مختار ریاست پاکستان نہیں کرسکتی تھی۔ یہ انڈین انڈیپنڈنٹ ایکٹ اور انیس سو تیس کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے مطابق سلطنت ِ برطانیہ کی ایک ڈومین تھا اور ملکہ ٔ برطانیہ کا مقرر کردہ گورنر جنرل اس کی طرف سے پاکستان کا حکمران تھا۔ (جاری ہے)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024