گوہر نایاب
درانی صاحب سے میرا تعلق تین عشروں پر محیط ہے، لڑکپن میں بھی وہ میرے آئیڈیل تھے اور آج بھی ان کی شاندارپر کشش شخصیت دل کو بھاتی ہے۔ گہری آنکھیں، چوڑی پیشانی، چہرے پہ بکھری بے پناہ ذہانت ، گھل مل جانے کی عادت اور دانشمندانہ گفتگو۔ تایا ابو بتاتے تھے کہ کم عمری ہی سے ان کے خیالات عام لڑکوں سے مختلف تھے اور وہ کچھ مختلف کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ ہمارے ہاں یا ہم ان کے ہاں جاتے تو میں انکی گفتگو سننے کے لئے قربت کے بہانے تلاش کرتا۔ان کے چچا اور میرے والد و تایا میں ایک قدر مشترک تھی، تینوں بینکر تھے ہم پیشہ ہونے کی وجہ سے دوستی ہوئی اورپھر ملاقات کے مواقع ملتے رہے ۔بعد ازاں درانی صاحب فوج میں کمیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور پھر کیپٹن کے عہدے تک پہنچنے کے بعد 1988میںپیشہ تبدیل کر کے سول سروسز کا انتخاب کیا۔ بیس سال کے قلیل عرصے میںوہ افسر شاہی کی معراج پر پہنچ گئے۔یوں توبیشتر قومی ادارے تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیںمثلاً پولیس، نیب، عدلیہ،صحت، تعلیمی ادارے وغیرہ۔ عوام کا ان اداروں پر اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے، تنقید بے بنیاد نہیں،عوام کے بیشتر مسائل کاسبب شاید یہی ادارے ہیں۔ناقدین اداروں کی ناقص کارکردگی کا ذمہ دار افسر شاہی کو ٹہراتے ہیں ۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ افسر شاہی ملک کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، انتظامی امور کو بہترین انداز میں چلانے کے لئے سول سرونٹس کا کردار بے انتہاء اہمیت کا حامل ہے۔ملک کو چلانے کے لئے منتخب یعنی انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے والے سیاست دان اور مقابلہ کے امتحان کے ذریعے منتخب یعنی افسر شاہی ، کی ضرورت ہوتی ہے۔ منتخب سیاست دان پانچ سال کی مدت کے لئے بر سر اقتدار آتے ہیں اور دوبارہ حکومت حاصل کرنے کے لئے انہیںایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑتا ہے جب کہ سول سروسز کے ذریعے افسر شاہی میں داخل ہونے والے افسران ریٹائرمنٹ تک اور بعض اوقات بعد میں بھی ریاست کے اہم عہدوں پر اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ سیاست دان دفتری امور کا ذیادہ تجربہ نہیں رکھتے لہذٰا وہ افسر شاہی کے دست نگر رہتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ افسر شاہی ہی دراصل ملک چلاتی ہے تو یہ مبالغہ آرائی نہ ہو گی۔ اپریل 1948میں پشاور میں سول سرونٹس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے افسران کو پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہوئے فرمایا، "حکومتیں بنتی ہیں ختم ہوتی ہیں، وزیراعظم آتے ہیں چلے جاتے ہیں، وزراء آتے ہیں چلے جاتے ہیں مگر آپ لوگ اپنی جگہ موجود رہتے ہیںجس کی وجہ سے آپ کے کندھوں پرملک و قوم کی بھری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔آپ نے کسی سیاسی رہنماء یا سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کرنی، یہ آپ کا کام نہیں ہے" شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شفاف انتخابات کرانے کے لئے نگران حکومت نے ایسے افسران کا انتخاب کیا گیا ہے جوقائد کی نصیحت پر عملی طور پر پورے اترتے ہیں۔چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز اور آئی جیز کی تقرری اس کا منہ بولتا ثبوت ہے جن کی پیشہ ورانہ قابلیت اوردیانت داری کے مخالفین بھی گواہ ہیں۔صوبہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جو قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد کے لحاظ سے ا نتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ جس نے جنرل الیکشن میں پنجاب سے میدان مار لیا وہ ہی جماعت مرکز میں حکومت بنانے کی حق دار ہوتی ہے اس لئے تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی نظرپنجاب پر لگی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ پنجا ب کودیگر صوبوں کی نسبت انتہائی حساس مانا جاتا ہے، مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے لئے جنگ چھڑنے ہی والی ہے اور چونکہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے تو ناجائز بھی جائز ہونے جا رہا ہے۔ اسی ناجائز کو روکنے کی لئے ایک بہترین ٹیم کی ضرورت تھی جس کے لئے بہترین لوگوں کا انتخاب کیا گیا جو قابل ستائش ہے۔ بالخصوص صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دھیمے لہجے والے عہد حاضر کے زہین اور قابل ترین افسر، چیف سیکرٹری پنجاب اکبر حسین درانی اپنی مثال آپ ہیں۔اکبر درانی اس سے قبل بلوچستان میں مختلف اہم مناصب پر خدمات سر انجام دے چکے ہیں،صوبہ کے لئے ان کی خدمات ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ بحیثیت سیکرٹری داخلہ انہیںانتہائی سنگین چیلنجز کا سامناتھا، صوبہ دہشت گردی کی دلدل میں ڈوبا ہوا تھا، بلوچ، پٹھان، آباد کار، ہزارہ برادری سبھی دہشت گردی سے متاثر تھے، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور امن و امان قائم رکھنے کے ذمہ داراہلکار وں کو بھی نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ ایسے میں عام شہری شدید عدم تحفظ کا شکار اور خوف ذدہ تھے۔ صوبے کی خوش قسمتی کہ ایسے میں اسے اکبر درانی جیسا قابل افسر نصیب ہوا جس نے اس مشکل کام کا بطور سیکرٹری داخلہ بیڑہ اٹھایا اور قلیل مدت میں 18,18گھنٹے کام کرتے ہوئے موثر اقدامات کے ذریعے اس لعنت کو بتدریج کم کیا۔دشمن عناصر نے انہیں راستے سے ہٹانے کی کوشش بھی کی لیکن وہ اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہ ہوسکے اور اکبر درانی نہ صرف محفوظ رہے بلکہ انکے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔اس وقت صوبے میں امن و امان کی صورت حال ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ اکبر درانی ایک ادبی شخصیت ہیں اور ادب سے بے حد لگائو رکھتے ہیں، کوئٹہ سمیت ملک کے مختلف شہروں میں ادبی محفلوں کورونق بخشتے رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک کی مایہ ناز ادبی شخصیات سے ان کے ذاتی تعلقات ہیں۔ اپنے دور ملازمت میں انہیں کئی سال پنجاب میں بھی گزارنے کا موقع ملا جس کے باعث وہ صوبے کے سیاسی و معروضی حالات سے بخوبی واقف ہیں ، فوجی پس منظر ہونے کے باعث جنگی بنیادوں پرکام کرنا بھی جانتے ہیں اورجوذمہ داریاں ملک و قوم کی جانب سے ان پر عائد کی گئی ہیں ان سے وہ عہدہ براء ہو کر نہ صرف ملک بلکہ بلوچستان کے غیور اور محب وطن عوام کا سر فخر سے بلند کر یں