PS-114 کا انتخابی معرکہ‘ ایک انارسوبیمار
3 دن بعد کراچی کے محمودآباد‘ اعظم بستی‘ چنیسر گوٹھ اورملحقہ علاقوں بشمول کراچی ایڈ منسٹریٹو سوسائٹی میں پی ایس 114 پرانتخابی معرکہ برپا ہوگا۔ پی پی‘ (ن) لیگ‘ جماعت اسلامی‘ تحریک انصاف اورمتحدہ قومی موومنٹ میدان میں ہیں‘ وہ جیتے گا جو اپنے ووٹرز کوگھروں تک لانے میں کامیاب ہوگا۔ محترمہ بے نظیربھٹو کہا کرتی تھیں کہ ووٹ گننے والے اہم ہوتے ہیں۔ صدر ایوب اورمادرملت کے صدارتی انتخاب میں نوائے وقت کی بینر ہیڈ لائن تھی” الیکشن کمیشن نے صدر ایوب کی کامیابی کا اعلان کردیا“۔ کیا خوبصورت طنزتھا اورکتنی گیرائی و گہرائی کہ تلملا تا ایوان صدراور اس کے مکیں کچھ نہ کرسکے‘ ماسوائے اس کے کہ سرکاری اشتہارکم یا بند کردیں۔ پاکستان میں مرحوم عباس اطہر سرخی سازی یا سرخی نکالنے کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں اوراس میں کوئی کلام نہیں کہ ”ادھرہم ادھرتم“ ۔ ”نہ ہم نہ تم صرف پاکستان“ ۔ ”کپتان میدان میں آگیا“ جیسی بہت سی سرخیاں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ معروف صحافی سہیل وڑائچ کی کم و بیش تمام کتابوںکے عنوان انہوں نے ہی تجویز کئے تھے۔
بات ہورہی تھی ووٹ گننے والوں کی 2002ءکے الیکشن کی‘ کراچی کے کئی حلقوں میں اپ سیٹ ہوا اور وہ جیت گئے جنہیں خود اپنی شکست کا یقین تھا۔ جمعیت علمائے اسلام (س) کراچی میں پہلی بار جیتی‘ اس کے قاری گل رحمن کیماڑی سے پی پی کے افتخار حسین کوشکست دے گئے حالانکہ وہ خاصے پر امید تھے۔ بہرکیف شکست و فتح میں مقدر کے ساتھ کچھ اور عوامل بھی ہوتے ہیں‘ جن کا تذکرہ ہو نہ ہو ”پتہ پتہ‘ بوٹا بوٹا بلکہ ساراچمن ہی جانے ہے“۔
پی ایس 114 پرماضی میں (ن) لیگ اورمتحدہ کامیاب ہوتی رہی ہیں‘ اس بار پی پی اور تحریک انصاف نے موثرانٹری دی ہے۔ سعید غنی اس حلقے میں رہتے ہیں اور سینیٹر ہیں۔ نجیب ہارون سے قبل پی ٹی آئی نے ایک اور امیدوار کا اعلان کیا تھالیکن پھر انتخابی حکمت عملی کے تحت مضبوط امیدوار کوسامنے لائی۔ متحدہ کے کامران ٹیسوری‘ (ن) لیگ کے علی اکبرگجربھی میدان میں ہیں لیکن ماضی میں نوازشریف کی حمایت سے کامیاب سرداررحیم اور عرفان مروت اب (ن) لیگ کا حصہ نہیں ہیں۔ اس لئے یہ دونوں تحریک انصاف کو سپورٹ کررہے ہیں۔ اس حلقے میں اردو بولنے والوںکے ساتھ ساتھ پنجابی‘ پشتو‘ ہندکو‘ کشمیری‘ سندھی وبلوچ آبادیاں بھی ہیں اور اقلیتی ووٹ بھی خاصا ہے۔ اس لئے ان کی حمایت یامخالفت بھی ہار جیت کے فیصلے میں اہم فیکٹر ہوگی۔ اردو اسپیکنگ میں متحدہ لندن کے بائیکاٹ نے متحدہ پاکستان کو زک پہنچائی ہے لیکن آخری مرحلے پر انتخابی مہم کامخصوص رنگ ڈھنگ پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے کہ جس طرح برادری ا زم کاپرچار امیدواروں کے حامیوں کی جانب سے سینہ بہ سینہ ہورہا ہے وہ وفا پرستوںکوخموش اور حق پرستوںکو آگے لے آئے۔
کراچی کے بعض علاقے بعض جماعتوں کے گڑھ ہیں جہاں ایک خاص کمیونٹی ہی کامیاب ہوتی ہے لیکن کالا پل‘ ڈ یفنس کلفٹن‘ گلشن‘ گلستان جوہر‘ بہادرآباد‘ پیر کالونی اور ملحقہ بستیاں قائد آباد‘ اورنگی ٹاﺅن کے بعض علاقے اوربلدیہ ٹاﺅن وپاک کالونی سے ملحقہ آبادیوں میں ملی جلی برادریوںکے باعث کبھی یکساں رزلٹ سامنے نہیں آتا۔ یہاں سے ستارافغانی‘ عارف علوی‘ خوش بخت شجاعت‘ اسد اللہ بھٹو‘محمد حسین محنتی‘ لئیق خان بھی کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ یعنی کبھی متحدہ‘ کبھی اے این پی‘ کبھی جماعت اسلامی تو کبھی تحریک انصاف اب کی بار پی ایس 114 کے ووٹرز کی چوائس کیا ہوگی‘ یہ اہم سوال ہے۔
پانامہ لیکس سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بنی جے آئی ٹی میں نواز شریف کے ”بچوں“ کی پیشی اور جرح کے بھی اس حلقے کے نتیجے پرا ثرات ممکن ہیں۔ اب امیدواروں کی طرح ووٹر بھی نقصان کی سرمایہ کاری سے گریز کرتا ہے۔ سندھ سے وفاق تک فائدہ کہاں سے ممکن ہے ۔ ملازمت کون دلوائے گا؟ تھانے کچہری میں کس کا اثر رسوخ ہے۔ یہ سب کچھ پہلے نہیں سوچا جاتا تھا لیکن اب تو قلت آب کے ایام میں مفت ٹینکر کس سیاسی دفتر کے تھرو ملے گا؟ اس نہج پر بھی کچی پکی بستیوں کے مکیں سوچتے ہیں۔ ایسے میں سمدھی اورداماد کے ساتھ جے آئی ٹی میں پیش ہونے والی ”نانی کے آنسو“ ووٹرز کو متاثر کرپائیں گے یا عمران خان کی گرج چمک رائے دھندگان کو گرویدہ کرے گی یا پھرشہید رانی کے بیٹے کی آمد اور پاکستان کی محبت سے سرشار فاروق ستارکا وفادار ‘عوام کی اکثریت کو جمع کرپائے گا ۔ سب سوالوںکے جواب 9 جولائی کی شام کو مل جائیں گے‘ جب ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل ہوگا۔ یہ کراچی کا پہلا ضمنی انتخاب ہے جس میں تمام بڑی جماعتیں اپنے امیدواروں اور حامیوں کے لاﺅ لشکر کے ساتھ موجود ہیں۔ حلقے میں نعرے گونج رہے ہیں اور سب کو نتیجے کا انتظارہے یعنی ”ایک انارسو بیمار“ کامعاملہ ہے۔ دیکھتے ہیں گنتی کانتیجہ کیا نکلتا ہے اور کس کی کامیابی کا الیکشن کمیشن اعلان کرے گا؟