جن دنوں شہباز شریف وزیراعلیٰ اور نواز شریف وزیراعظم تھے ان دنوں مجید نظامی نے ان کے والد گرامی میاں شریف کو مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا۔ ’’اب آپ انڈسٹری کے اور یونٹ لگانا چھوڑ دیں‘‘ مجید نظامی کی اس بات پر بڑے میاں صاحب حیران پریشان ہو گئے اور بولے یونٹ نہ لگاؤں تو پھر میں کیا کروں ؟ اس پر مجید نظامی نے ان سے کہا خاندانی جھگڑوں کو نبٹانے کے لئے ’’بندر بانٹ‘‘ کردیجیے۔ میاں شریف مزید حیران ہو گئے اور کہنے لگے۔ آپ عجیب بات کر رہے ہیں کہ جو ہے وہ بانٹ دوں اور مزید یونٹ بھی نہ لگاؤں ؟ … انہیں یہ مشورہ عجیب و غریب محسوس ہو رہا تھا۔ میاں شریف کہنے لگے … مجھے تو بنک گھر آ کر قرضہ دیتے ہیں کیونکہ اب ہم اچھی کاروباری پارٹی ہیں۔‘‘ مجید نظامی بھی جرات مند صحافی اور سچ بولنے والے دوست تھے کہنے لگے ’’قرضہ دینا اور منافع لینا تو بنکوں کا کام ہے‘ اب جبکہ آپ کے دوبیٹے اقتدار میں ہیں اور آپ لوگ ’’لائم لائیٹ‘‘ میں ہیں تو لوگ سمجھیں گے کہ آپ کو یہ سہولیات اقتدار میں ہونے کی وجہ سے مل رہی ہیں‘‘ میاں شریف نے مجید نظامی کی بات کا کوئی نوٹس نہ لیا اور شوگر ملوں سمیت کئی اور یونٹ بھی لگائے۔ کل مریم نواز جے آئی ٹی میں پیش ہوئیں۔ انہیں لندن فلیٹس ‘ منی ٹریل اور دیگر معاملات پر جواب دینا تھا۔ اگر میاں شریف اپنے دو بیٹوں کے صاحب اقتدار ہونے کی لذت آفرینی اور شکر گزاری تک محدود رہتے تو آج جے آئی ٹی کے سامنے مریم نواز کو پیش نہ ہونا پڑتا۔ کہیں نہ کہیں خواہشات کو لگام دے کر عزت اور وقار کے معیار کو برقرار رکھنے کے لئے قربانی دینی پڑتی ہے لیکن اس قربانی کا مطلب یہ نہیں جو اقتدار برقرار رکھنے اور کرسی کے ساتھ چمٹ جانے کے لئے دی جاتی ہے۔ بلکہ اس قربانی کا مطلب یہ ہے کہ انسان عزت اور وقار کے لئے دولت اور اقتدار کی قربانی دینے کی اہلیت رکھتا ہو۔ ظاہر ہے کہ پیسہ ‘ اقتدار اور دیگر آسائشیں اور پھر نامور رہ کر سب کچھ حاصل کرنا بڑا دشوار ہوتا ہے۔ جے مجید نظامی کی اس بات کو سامنے رکھناچاہئے جو انہوں نے برسوں پہلے کہی تھی کہ لوگ یہ کہیں گے کہ یہ سہولیات آپ کو اقتدار میں ہونے کی وجہ سے مل رہی ہیں اور سچی بات تو یہی ہے کہ میاں شہباز شریف کے وزیراعلیٰ ہونے اور پھر میاں نواز شریف کے وزیراعظم ہونے کا فائدہ ان کے کاروباری معاملات کو ہوتا رہا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ پہلے بھی لکھا تھا کہ صحافیوں کی ایک جماعت گپ شپ کر رہی تھی۔ وہیں پر ایک سینئر صحافی نے کہا نوازشریف جب وزیراعظم کی حیثیت سے ایک غیر ملکی دورے پر تھے تو کشمیر سمیت دیگر اہم امور پر بات ہو رہی تھی کہ اتنے میں کسی نے ذکر کر دیا کہ اس ملک میں فلاں چیز کی انڈسٹری کی بڑی مانگ ہے اور اس کے ساتھ ہی میاں نواز شریف ساری باتیں چھوڑ کر ’’دو اور دو چار‘‘ کے چکر کی تفصیلات میں لگ گئے۔ مجھے یہ بات سن کر حیرت اس لئے نہیں ہوتی تھی کہ ایک کاروباری خاندان کے پس منظر کے ساتھ ان کا یہ رویہ بہت قدرتی تھا اور پھر ان کے سیاست میں آنے کا پس منظر بھی کچھ یوں ہے کہ جب بھٹو نے نیشنلائزیشن کی تھی تو ’’اتفاق انڈسٹری‘‘ بھی شامل تھی اور یہ بات ایسی تھی جو میاں فیملی کو سیاست میں لے آئی تھی۔ کیونکہ اس خاندان کے خوش آئند خواب اسی صورت بحال ہو سکتے تھے کہ وہ سیاست میں آئیں۔ میاں صاحب ذہین و فطین شخصیت تھے انہوںنے جرنیلوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے ہوئے تھے۔ ان میں جنرل اقبال اور جنرل جیلانی بھی شامل تھے اور جنرل جیلانی جب پنجاب کے گورنر ہوئے تو انہوں نے نواز شریف کو اپنا وزیر بنایا۔ کہتے ہیں کہ وہ شہباز شریف کو وزیر بنانا چاہتے تھے مگر میاں صاحب نے کہا کہ یہ حق ان کے بڑے بیٹے کو ملنا چاہئے لہذا نواز شریف صوبائی وزیر خزانہ بنادئیے گئے۔ جہاں سے ترقی کرتے کرتے وہ وزیراعظم کے عہدے تک پہنچے اور اس سارے پس منظر میں کوئی نظریاتی یا فکری سلسلہ موجود نہیں لہذا اس خاندان کے افراد کی مشکلات کسی نظریے سے وابستگی یا فکری سطح پر کسی بڑی کتاب کی تخلیق پر سزا وغیرہ ہونے کی وجہ سے تو نہیں ہو سکتی تھیں لہذا یہ کسی مشکل کا شکار ہوئے تو وہ یہی ہو سکتی تھی جس کو وہ بھگت رہے ہیں اور پھر ان سارے افراد پر بڑی مشکل بھی آ پڑی ہے کیونکہ یہ سارے ٹھنڈے کمروں میں رہنے والے اچھا کھانا کھانے والے اور پرآسائش انداز میں سفر کرنے والے لوگ ہیں تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو جب جے آئی ٹی میں جانا پڑا اور واپسی میں حسب روایت پریس کانفرنس میں یہ بھی دکھانا پڑا کہ ہمیں اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا لیکن وہ جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور سیخ پا ہو گئے کیونکہ دھوپ برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی یہ کام بے چاری پاکستانیی غریب عوام کا ہے جو گھنٹوں اور برسوں کے حساب سے کچہریوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ اب جے آئی ٹی میں ان لوگوں کو غلط پیش کیا جا رہا ہے یا صحیح پیش کیا جا رہا ہے مگر یہ پیشی کسی ’’ہیرو‘‘ کے طور پر نہیں سکتی تھی اور نہ ہی اس کو شہنشاہانہ انداز میں جتانے کی ضرورت تھی۔ البتہ یہ پیشیاں باوقار انداز میں بھی بھگتی جا سکتی تھیں۔ مریم نواز بھی خاموشی کے ساتھ آتیں اور اپنا موقف بیان کرتیں مگر اس غلام قوم کی سوچ پر کیا کہا جائے کہ دھوپ میں وزیرخزانہ کے لئے دو منٹ کھڑا رہنا دشوار تھا اور عوام انکے پروٹوکول میں مشکلات بھی اٹھاتی ہے اور دھوپ بھی برداشت کرتی ہے اور جو ڈھائی ڈھائی ہزار سیکیورٹی پر افراد مامور کئے گئے اور جن میں خواتین بھی شامل ہیں ان کے جسموں کو دھوپ ‘ سردی‘ بارش اور گرمی نہیں لگتی ہے؟ یا وہ خواتین دیگر معزز خواتین کی طرح قابل احترام نہیں ہیں ؟ اور اگر پاکستان کی مزدور بیٹیاں تکالیف برداشت کر لیتی ہیں تو پھر پاکستان کی ہر عورت تکلیف اٹھا سکتی ہے۔ جیسا کہ بینظیر بھٹو کی مثال دی جاس کتی ہے کہ انہوںنے بھی عدالتوں تک کا سامنا کیا مگر اس میں باوقار انداز ہی اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جے آئی ٹی میں پیشی ہونے کو ایسی ایکٹویٹی بنا دیا گیا جس میں یہ بات سامنے آنے لگی ہے کہ یہ کوئی نہایت شاندار مرحلہ ہے جس میں گزرنا نہایت قابل تحسین بات ہے اور نئی نسل کو اس پرجتنا فخر ہو وہ کم ہے۔ کم از کم اس سارے مرحلے کو باوقار انداز میں سامنا کرنے کا طریقہ اپنا چاہئے تھا بدقسمتی سے جب سارا کچھ اقتدار کے حصول کے لئے ہوتا ہے اور مستقبل کے وزیراعظم تک کے فیصلے سوچ لئے جاتے ہیں تو پھر اﷲ کی رضا اور اﷲ کی حکمت کو نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی مکافات عمل پر غور کیا جاتا ہے … اس لئے ہم بحیثیت قوم قابل مذمت اقدامات پر تنقید کرنے کی بجائے جشن منانے تک جاتے ہیں!!
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024