مسلم معاشرہ میں حکمران کا کردار اور دور حاضر کے تقاضے
امیر افضل اعوان
اسلام میں باہمی رویوں میں توازن کے ساتھ ساتھ دوسروں کے حقوق اور عدل و انصاف کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ انسانی زندگی میں ہر رشتے اور فرد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ان کے حقوق کا بیان اور اس حوالہ سے کمی و کوتاہی سے گریز کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح معاشرہ میں جہاں عوام کے کردار کی وضاحت کی گئی وہیں اسلامی ریاست میں حاکم کے کردار پر بھی بڑی تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے قبل از اسلام جہاں دیگر خرافات اور جہالت بام عروج پر تھی وہیں معاشرتی سطح پر نا انصافی میںعام آدمی کاسانس لینا بھی محال ہو چکا تھا۔ انہی ابتر حالات میں اللہ پاک نے دنیا سے شرک و جہالت کے خاتمہ اور انسان کو اس کی عظمت رفتہ سے ہمکنار کرنے کے لئے حضور اکرم کو بھیجا جنہوں نے حقیقی معنوں میں عدل و انصاف کی بنیاد رکھی۔
اسلام میں حاکم کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے ہر چیز کھول ، کھول کر بیان کر دی گئی ہے اس حوالہ سے قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ ”وہ لوگ اگر ہم انہیں دنیا میں حکومت دے دیں تو نماز کی پابندی کریں اور زکوٰة دیں اور نیک کام کا حکم کریں اور برے کاموں سے روکیں اور ہر کام کا انجام تو اللہ کے ہی ہاتھ میں ہے۔“ سورة الحج، آیت 41، قرآن پاک کی اس آیت مبارکہ میں اسلامی طرز حکومت کے خدو خال اور حکومت چلانے والوں کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں۔ ایک غیر اسلامی ریاست کی ذمہ داریاں محض یہ ہیں کہ پولیس کے ذریعہ امن بحال رکھا جائے۔ انتظامیہ کے ذریعہ حکومت کاروبار چلایا جائے اور فوج کے ذریعے سرحدوں کی حفاظت کی جائے۔مگر ایک اسلامی ریاست کی بنیاد اخلاقی اقدار پر اٹھتی ہے اسی لئے اسلام نے حکومت کے انتظام و انصرام کو وہ اہمیت نہیں دی جو اخلاقی اقدار کو دی ہے اور یہی چیز ایک اسلامی طرز حکومت کو دوسرے تمام اقسام حکومت سے ممتاز کرتی ہے۔
”اے ایمان والو اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور ان لوگوں کی جو تم میں سے حاکم ہوں پھر اگر آپس میں کوئی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیرو اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتے ہو یہی بات اچھی ہے اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے“ سورة النسائ، آیت 59، اسلامی حکومت کے چار اصول اور چار مستقل بنیادیں ہیں جن کی اس آیت مبارکہ میں وضاحت کی گئی ہے جس کے مطابق اسلامی نظام میں اصل مطاع صرف اللہ تعالیٰ ہے وہی کائنات کا خالق و مالک ہے۔ رسول کی اطاعت اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس اللہ کے احکام کی اس کی منشاءکے مطابق بجا آوری کا رسول کی اطاعت کے بغیر کوئی ذریعہ نہیں۔ اللہ پاک نے اپنے انبیاءکو خلافت بھی دی اور بادشاہت سے بھی سرفراز کیا۔ حضرت داﺅد کو بادشاہت عطا کی گئی تو ساتھ ہی عدل و انصاف کا حکم بھی دیا گیا۔ قرآن کریم میں اس حوالہ سے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”اے داﺅدؑ ہم نے تم کو زمین پر حاکم بنایا ہے سو لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے رہنا اور آئندہ بھی نفسانی خواہش پر پیروی مت کرنا (اگر ایسا کرو گے تو) وہ خدا کے راستہ سے تم کو بھٹکا دے گی جو لوگ خدا کے رستے سے بھٹکتے ہیں ان کے لئے سخت غذاب ہوگا۔ اس وجہ سے کہ وہ روز حساب کو بھولے رہے“۔ سورة ص، آیت 26، معاشرہ میں موجود درجات کی تقسیم کرتے ہوئے اللہ پاک ابن آدم کو مخاطب کرتے ہوئے خود ارشاد فرمایا ہے کہ اگر کسی کو کوئی بلند مرتبہ یا خلافت و حکومت دی جاتی ہے تو یہ دراصل اس کا امتحان ہے۔ قرآن کریم میں بیان ہے کہ ”وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند دجے دیے تا کہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔ سورة الانعام ، آیت 165، اس آیت مبارکہ میں واضح کر دیا گیا ہے کہ تمام انسان زمین میں خدا کے خلیفہ ہیں۔ اس معنی میں کہ خدا نے اپنی مخلوکات میں سے بہت سی چیزیں ان کی امانت میں دی ہیں اور ان پر تصرف کے اختیارات بخشے ہیں۔
اسلام میں رعایا کو جو اختیارات دیئے گئے ان کی دنیا میں کہیں اور کوئی مثال نہیں ملتی، روایت ہے کہ سیدنا عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں مسجد نبوی کی توسیع کا ارادہ کیا تو سیدناابی بن کعبؓ کا مکان اس میں رکاوٹ تھی، سیدنا عمرؓ نے ابی بن کعبؓ سے کہا بلکہ انہیں مجبور کیا کہ وہ جائز قیمت لے کر مکان دے دیں لیکن ابی بن کعبؓ مکان کو فروخت کرنے پر آمادہ نہ تھے اور مدعا کیلئے سیدنا زید بن ثابتؓ کو اپنا ثالث (یا عدالت) بنانا منظور کر لیا۔ تنقیح طلب معاملہ یہ تھا کہ اسلام انفرادی ملکیت کو کس قدر تحفظ دیتا ہے اور آیا اجتماعی مفاد کی خاطر انفرادی مفادات کو قربان کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ چنانچہ کتاب و سنت کی رو سے سیدنا زید بن ثابتؓ نے اس مقدمہ کا فیصلہ سیدنا عمرؓ کے خلاف دے دیا۔ جب ابی بن کعبؓ نے مقدمہ جیت لیا تو انہوں نے یہ مکان بلا قیمت ہی مسجد کی توسیع کے لئے دے دیا۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،