صوفیائے کرام، مشائخ عظام اور اولیاءاللہ
ملک مظہر حسین اعوان
صوفیائے کرام، مشائخ عظام اور اولیاءاللہ کی اس سرزمین پر دین کی آبیاری کرنے والی نیک ہستیوں میں سے سلطان الشعراءالحاج پیر محمد واصف بڈیانویؒ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔آپ جنوری1942کو ایند پور موڑی تحصیل نور پور ضلع نکڑھ بھارت میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد بزرگوار بابا جی شیر محمد قادری قلندری چشتی صابری اپنے وقت کے کامل بزرگ تھے۔ انہوں نے ان کا پیدائشی نام محمد بشیر رکھا۔ قیام پاکستان کے بعد بابا جی نے اپنے اہل خانہ سمیت بھارت سے ہجرت کر کے قصبہ بڈیانہ(سیالکوٹ) میں مستقل سکونت اختیار کی۔ حضرت پیر واصف بڈیانوی بچپن ہی سے حالات کی ستم ظریفی سے نبرد آزما رہے۔ کسی سکول یا مدرسے سے کوئی تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ تاہم والد نے اپنے زیر سایہ گھریلو اور دینی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ بڈیانہ میں آمد کے بعد والدہ محترمہ پہلے بیمار ہوئیں اور کچھ عرصہ علالت کے بعد جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ والدہ کی جدائی نے ان کے دل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑے ۔ والد نے گاہے بگاہے دلجوئی کرنے کے ساتھ ساتھ بہن بھائیوں کی ذمہ داری بھی ان پرڈال دی آپ نے والد کے زیر سایہ خدا اور رسولِ خدا سے عشق و محبت علم معرفت و تصوف اور روحانی فیوض و برکات کی منزلیں طے کیں۔کچھ عرصے بعد حضرت بابا جی شیر محمد قادری قلندری چشتی صابری نے اپنے صاحبزادے حضرت واصف بڈیانوی کو چاروں سلسلوں میں خلافتیں عطا کر دیں اور خود زندگی کی قید و بند سے آزاد ہو کر سفر آخرت کو روانہ ہو گئے۔ انہیں بڈیانہ شریف قبرستان میں دفن کیا گیا۔ اس عالمِ غم و فکر میں واصف بڈیانویؒ کے اندر ہی اندر جو ایک آتشی الاﺅ کی صورت اختیار کی وہ ۔جو عشق مجازی سے ہوتی ہوئی عشق حقیقی تک پہنچ گئی۔اپنے آپ سے محو گفتگو گم سم الگ تھلگ بیٹھے رہتے۔ پھر جب اندر کا چھپا درد زبان پر آیا تو لفظ شعروں کی صورت میں ڈھلنے شروع ہو گئے۔ تقریباً پینتیس(35) کتابیں لکھیں ، بعد میں دوستوں کے مشورے سے تخلص تبدیل کر کے واصف رکھا۔ اس کے بعد کئی بزرگ اور صاحب مزار ہستیوں کی نثر اور نظم میں کتابیں لکھیں اور کئی بزرگ ہستیوں نے بھی دستاریں عطا کیں۔حضرت پیر واصف بڈیانوی رحمة اللہ علیہ کی شاعری عشقِ رسول سے لبریز ،شان صحابہ و آل رسول سے سرشار ،فیضان ولایت کی عکاس ہے ۔آپ نے اپنی شاعری کے لئے اپنی مادری زبان پنجابی کو اظہار کا ذریعہ بنایا ۔مگر پنجابی زبان میں بھی ایسے ایسے باکمال الفاظ اور کافےے و ردیف لائے کہ پڑھنے والاوجد میں آئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آپ نے حضرت امام علی الحقؒ سیالکوٹ اور حضرت داتا علی ہجویریؒ لاہور ان دونوں درگاہوں پرہر جمعرات مسلسل تقریباً بائیس سال تک حاضری دی۔ آپ نے دینی، علمی، ادبی، قلمی،اصلاحی، فلاحی اور سماجی ہر محاذ پر جہادکر کے جو خدمات سرانجام دی ہیں انہیں تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ بڈیانہ کی سر زمین جہاں اکثر ڈھول ڈھمکے اور اسلام کے منافی محفلیں سجتی تھیں۔ یہاں آباد لوگوں کے دلوں میں دین کی محبت پیدا کی اور سرزمین بڈیانہ پر اتنے بڑے عظیم الشان دینی، ادبی ا جتماعات کیے۔ جن میں ملک کے کونے کونے سے قراءحضرات، جید علماءکرام، ممتاز شعراءکرام اور معروف نعت خواں حضرات شرکت کرتے۔آ پ اتحاد بین المسلمین کے زبردست داعی تھے۔یہ ہی وجہ تھی کہ مختلف مذاہب کے لوگ آپ کے پا س حاضری دیتے اور روحانی فیض حاصل کرتے ۔
بڈیانہ میں انہوں نے کئی مسجدیں آباد کیں اور نعتیہ محفل کی بنیاد رکھی۔ آج یہاں عاشقانِ رسول آپ کی محبت میں اکثر محفلیں سجاتے نظر آتے ہیں۔آپ نہایت سادہ طبع اور خوش اخلاق طبیعت کے مالک تھے۔ انہی اوصاف کی بناءپر آپ نے کئی غیر مسلم خاندانوں کو کلمہ حق کا درس دیا اور انہیں دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ آستانے پر آنے والے چھوٹے بڑے، امیر غریب کی ایک جیسی خاطر مدارت کرتے۔ ہر آنے والے سے اس قدر پیار ، محبت اور شفقت سے پیش آتے کہ وہ ان کی شخصیت کا ہمیشہ کےلئے گرویدہ ہو جاتا۔ حضرت پیر واصف بڈیانوی محافلِ میلاد سے خاص شغف رکھتے تھے ۔مسلکِ اہلسنت پر سختی سے کاربند تھے ۔اصلاحِ احوال کےلئے کسی پر جبر نہ کرتے بلکہ محبت و شفقت سے اصلاح فرماتے ۔ڈیرے پر دن رات لنگر جاری رہتا ۔حضرت واصف بڈیانوی نے اپنے وصال سے قبل صاحبزادہ ظہور واصف بڈیانوی کو اپنے دستِ مبارک سے دستار عطا کی اور آستانہ عالیہ واصفی بڈیانہ شریف کا گدی نشین مقرر کیا۔ پیر طریقت، رہبر شریعت سلطان الشعرءالحاج محمد واصف بڈیانوی 5جولائی2003ءکو دنیا سے پردہ فرکر گئے لیکن ان کی درگاہ سے روحانیت اور فیوض و برکات کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے ان کے مریدین اور عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو صاحبزادہ پیر طہور واصف بڈیانوی کی زیر نگرانی اکثر دینی اور روحانی محفلیں سجانے میں مصروف رہتے ہیں۔ حضرت پیر واصف بڈیانوی کے یوم وصال 5جولائی کو سالانہ عرس مبارک نہایت عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ عقیدت مند دربار واصف پر چادریں چڑھاتے ہیں عرس کی تقریبات دن اور رات کو جاری رہتی ہیں۔ جن میں ملک کے طول و عرض سے عقیدت مند شرکت کرتے ہیں۔ تقریبات کے ساتھ ساتھ لنگر کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ اختتام پر عالم اسلام اور دین اسلام کی سر بلندی کےلئے دعائے خیر کی جاتی ہے۔
فنش،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،