طفیلی چوہے کی گیدڑبھبھکی
ایک جنگل میں ایک گیدڑ اور چوہا رہتے تھے جو بہت گہرے دوست تھے ۔ وہ اکٹھے جنگل کی سیر کو نکلتے اور خوب موج مستی کرتے۔ وہ چھوٹے پرندوں ‘ خرگوشوں ‘ گلہریوں اور لال بیگوں کے پیچھے بھاگتے اور انہیں ڈرا کر بہت خوش ہوتے۔ گیدڑ کا چوہے کے علاوہ گینڈے اور ہاتھی سے بھی یارانہ تھا۔ ہاتھی کئی بار مشکل وقت میں گیدڑ کا ساتھ دے چکا تھا۔ تاہم گیدڑ کو گینڈے سے زیادہ فائدہ ملنے کی امید نہ تھی۔ اس لئے اس نے ہاتھی کے ساتھ اپنے تعلق کی پرواہ کئے بغیر گینڈے سے دوستی کی پینگیں بڑھا لیں۔ اس بات نے ہاتھی کو سخت مایوس کیا۔ دوسری طرف چوہا بھی گینڈے کا زبردست دوست تھا۔ دونوں کو گینڈے کی دوستی کا بہت زعم تھا۔ دونوں مل کر شیر کو جنگل سے نکال باہر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن شیر کی طاقت کے سامنے ان کی دال نہیں گلتی تھی۔ اندر کھاتے ان کے عزائم پروان چڑھتے رہے۔ انہوں نے بہت سے منصوبے بنائے اور شیر کی مخاصمت میں تعاون جاری رکھا کافی عرصے کے بعد ایک دفعہ چوہے نے جنگل میں اعلان کر دیا کہ وہ شیر کو ختم کرنے کے لئے گیدڑ کی ہر ممکن مدد کریگا۔ لیکن اس بات نے کسی کو بھی حیران نہ کیا۔ کیونکہ یہ بات ہر کوئی پہلے ہی جانتا تھا۔
اسرائیل نے شیخی بھگاری ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف بھارت کی ہر ممکن مدد کریگا کیونکہ وہ فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس اور کشمیری مزاحمتی تحریکوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتا۔ جب دونوں ظالم ممالک مظلوم مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے مشترکہ مشن پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں تو ان کے درمیان تعاون بھی علی الاعلان ہونا چاہئے۔اور دونوں ممالک کو امریکہ جیسے طاقتور ملک کی حمایت بھی حاصل ہے۔
اسرائیل‘ فلسطینیوں کی ایک ایک انچ زمین چھین لینا چاہتا ہے۔ جبکہ بھارتی‘ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو کچل دینا چاہتے ہیں اسرائیل کی اس تازہ گیدڑ بھبھکی کا برا منانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسرائیل ہر کام امریکی خوشنودگی کے لئے کرتا اور تازہ بیان کا مقصد پاکستان کو خبردار کرنا ہے کہ اگر اس نے چین کے ساتھ راہ و رسم کو بڑھانا جاری رکھا تو اس کو نقصان پہنچانے کے لئے ہر طرح کے ذرائع استعمال کئے جائیں گے۔
امریکی سینیٹر جان مکین کا لب و لہجہ پاکستان میں اور تھا اور افغانستان پہنچتے ہی وہ پاکستان کے رویے کو بدلنے کی باتیں کرنے لگے۔ انہوں نے یہ بھڑک بھی لگائی کہ اگر پاکستان نے خود کو نہ بدلہ تو امریکہ خود کو بدل لے گا۔ اس کے پیچھے بھی ”ڈومور“ کا تقاضہ ہی نظر آتا ہے۔ ایک ایسا ملک جس نے تقریباً چار دہائیوں تک لاکھوں افغان مہاجرین کو جذبہ اخوت کے تحت اپنے پاس مہمان بنائے رکھا‘ بہت سوں کو یہاں آباد کر لیا‘ دشت گردی کے خلاف جنگ میں اسی ہزار کے قریب فوجی و سویلین لوگوں کی شہادت کو گلے لگایا اور اربوں ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کیا‘ اس ملک کو دہشت گردوں کا پشت پناہ قرار د ینا کہاں کا انصاف ہے؟ جہاں تک پاکستان کے بدلنے کا تعلق ہے وہ تو ہو کے ہی رہے گا۔ بس تھوڑے ہی عرصے کی بات جب افغانستان کے ساتھ سرحد سیل ہو جائے گی اور کلبھوشن نیٹ ورک کی قلعی مکمل طور پر کھل جائے گی تو پاکستان مکمل پرامن ہو جائے گا ۔ امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ پاکستان سیدھے رستے پر چل نکلا ہے اور اس کی منزل روشن ہے اور اس روشن منزل پر پہنچ کر پاکستان ایک خود مختار ملک بن جائے گا جو اپنی پالیسیوں اور فیصلہ سازی میں آزاد ہو گا۔
قرائن یہ بتاتے ہیں کہ ہمارے سیکیورٹی ادارے بھارت‘ امریکہ‘ اسرائیل گٹھ جوڑ سے کبھی بھی لاعلم نہیں رہے۔ اور انہی کے بروقت انتظامات کا نتیجہ ہے کہ باوجود کو شش کے یہ گٹھ جوڑ جس نے افغانستان کو بھی ساتھ ملا لیا ہے ‘ پاکستان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکا۔ بھارت پاکستان کو تنہا کرنے کے دعوے کیا کرتا تھا۔ اور آج امریکہ اور اسرائیل کے علاوہ کوئی بھی ملک پاکستان کو تنہا کرنے کے لئے تیار نہیں۔ پاکستان کے پاس کمی ہے تو ایک دبنگ وزیر خارجہ کی کمی ہے جو ہر بیرونی محاذ پر پاکستان کے م¶قف کو ڈٹ کر بیان کرے اور کشمیری عوام کے مسائل کو اجاگر کرے۔ جہاں تک اسرائیل اور بھارت کا تعلق ہے‘ وہ چوہے اور گیدڑ کی طرح شیر کا کبھی کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ چاہے وہ ایک دوسرے کی مدد خفیہ کریں یا اعلانیہ۔
٭٭٭٭٭