ا سپیشل پر سنز کے مسائل حل کر نے کی ضرورت
کسی بھی فلاحی ریاست میں ہر شہری کو بنیادی انسانی حقوق ،آزادانہ رائے رکھنے اور اس کے اظہار پر حاصل قدرت ،شہری آزادیاں ،مساویانہ بنیادوں پر میسر ترقی کے مواقع اور اندرونی و بیرونی مداخلت کے خلاف تحفظ حاصل ہوتا ہے جس کے باعث وہ ناصرف اپنے تصورات کے مطابق زندگی گزارتا ہے بلکہ ریاست کی تعمیر میں بھی مقدور بھر حصہ ڈالتا ہے کیونکہ ریاست اس کے لیے ‘ماں کے جیسی ‘ کی حیثیت رکھتی ہے ۔
اگرچہ سبھی طبقات کی ضرورتوں کا خیال رکھناسما ج اور ریاست کی بنیادی ذمہ داری تصور کی جاتی ہے تا ہم معاشرے کے وہ لوگ‘ جنہیں قدرت نے زندگی کے کسی نہ کسی پہلو سے معمول سے ہٹ کر تخلیق کیا ہے اور جنہیں ہم" سپیشل پرسنز "کے نام سے جانتے ہیں‘ ان کی فلاح و بہبود ریاست کے علاوہ معاشرے کے دیگر طبقات اور عام آدمی کی بھی بنیادی ذمہ داری تسلیم کی جاتی ہے جس کے مظاہر ہم ترقی یافتہ خصوصاً مغربی ممالک میں جگہ جگہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں جہاں ایسے افراد کے لیے پوری قوم‘ دل کھول کر اپنے وسائل بروئے کار لاتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ترقی پذیر ممالک میں اس محاذ پر ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے کیونکہ یہاں نظر آنے والے حالات بھی زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں کیونکہ ہمارے ہاں اس سلسلے میں قوانین تو موجود ہیں تا ہم ان پر آج تک ان کی روح کے مطابق عملدرآمد نہیں ہوسکا یہی وجہ ہے پاکستان میں " سپیشل پرسنز" کے حالات زندگی زیادہ مخدوش اور صورتحال خاصی تاریک نظر آرہی ہے ۔
" سپیشل پرسنز" کے نمائندے اور اس سلسلے میں خاصے متحرک نوجوان مجیب الرحمن شامی نے اس حوالے سے جو معلومات فراہم کی ہیں ان کے مطابق پاکستان میں " سپیشل پرسنز " کی تعداد19 لاکھ ہے جن کے لیے مردم شماری میں خانہ مخصوص کر نے ،احتجاج کے نتیجے میں حکومت پنجاب کی طرف سے " سپیشل پرسنز " کو دی گئی درجہ چہارم کی عارضی ملازمتوں کو مستقل کر نے ،حکومت سندھ کی طرح پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بھی " سپیشل پرسنز " کا کوٹہ تین فیصد سے بڑھا کر پانچ فیصد تک کر نے ،این ٹی ایس کی فیس معاف کر نے ،پرائیویٹ سکولز ،کالجز اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے " سپیشل پرسنز " کو فیس سے مستثنٰی قرار دینے ،سرکاری اداروں کی طرح پرائیویٹ اداروں میں بھی " سپیشل پرسنز "کے لیے کوٹہ مختص کر نے ،سماج کے دیگر طبقات کی طرح " سپیشل پرسنز " کے لیے بہتر تعلیمی اور طبی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے ،سپیشل الاﺅنس کو ایک ہزار سے پانچ ہزار تک بڑھانے ،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں " سپیشل پرسنز" کو شامل کر نے ،کے پی کے ‘کے تعلیمی اداروں میں " سپیشل پرسنز "کے لیے مختص پانچ فیصد کوٹے کے اعلان پر عملدرآمد کر نے ،ٹرانسپورٹ میں کرایوں کی مد میں رعایت دینے ،معذور کی بجائے " سپیشل پرسنز "کا عنوان دینے جیسے اقدامات کے ذریعے معاشرے کے ان محروم اور محدودات کے حامل طبقات کو معمول کی زندگی کی طرف لوٹنے میں مدد کی جاسکتی ہے جو ناصرف ریاست اور قوم کی بنیادی ذمہ داری ہے بلکہ اس کے لیے تمام صحت مند لوگوں اور اداروں کو بھی آگے آنے کی ضرورت ہے کیونکہ قدرت نے ان کی صلاحیتوں اور وسائل میں ان اسپیشل اشخاص کے لیے بھی حصہ رکھا ہے ۔سب سے بڑی منصف ذات ہو نے کے ناطے‘ قدرت اپنی تخلیقات خصوصاً اپنے بندے سے کبھی بھی نا انصافی روا نہیں رکھ سکتی یہی وجہ ہے زندگی کے کسی ایک گوشے میں اگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کی صلاحیتوں کو کچھ محدود کیاہے تو کسی دیگر پہلو سے اسے‘ اس سے بھی زیادہ سرفراز فر ما دیا ہے یہی وجہ ہے کہ اسپیشل پرسنز بھی قدرت کی عنایات سے کسی نہ کسی شکل میں مالا مال ہوتے ہیں اور مواقع ملنے پر زندگی میں تیزی سے ترقی کی منازل طے کرتے ہیں زندگی کے ہر موڑ پر آسانی سے ایسے لوگ دیکھے جا سکتے ہیں جو معذوری کے با وجود معاشرے پر بوجھ بننے کی بجائے‘ قدرت کی طرف سے تفویض کی گئی اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تندرست لوگوں کے لیے بھی باعث تحریک بن جاتے ہیں ضرورت صرف ان کی اخلاقی حمایت ،حوصلہ افزائی اور قانونی طور پر سہولتیں فراہم کر نے کی ہے جس کے لیے ریاست کے علاوہ عام شہریوں کا بھی کلیدی کردار ہے ایسا کر کے انسان کو جو روحانی ،قلبی و دلی خوشی حاصل ہوتی ہے اس کا اس دنیا میں کوئی بھی متبادل نہیں ہے کیونکہ حقوق العباد کی ادائیگی کے حوالے سے اس سے زیادہ ارفع اور نیک کام کوئی بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنے جیسے بھائی بندوں کی زندگی کو معمول کی طرف لوٹنے میں ایک مددگار کا کردار ادا کر سکیںجو قدرت کے نزدیک بھی ایک پسندیدہ فعل سمجھا جاتا ہے ۔