کراچی کا وارث کون؟
کراچی دنیا کے چند بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔اسے میگا پولیٹن شہر کہا جاتا ہے ۔لیکن پاکستان بننے کے 70سال بعد بھی کراچی کی آہ وبکا دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ پاکستان کی آہ وبکا ہے۔ کراچی کی حیثیت ملک میں کسی صورت نظر انداز کرنے والی نہیں۔ اسوقت کراچی پونے تین کروڑ کی آبادی والا شہر بن چکا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے قیام کے وقت اسے دارلحکومت چنا اور تحریک پاکستان کی بڑی بڑی شخصیات نے ا ن سے اتفاق کیا۔ کراچی شہر کی اہمیت کا یہ حال تھا کہ یہاں انگریز کے ایم سی اور فریئر ہال اور اہم ترین سڑکوں پر واک کرتے تھے۔ کراچی کی آبادی اسوقت بھی ملک کی دیگر آبادیوں سے بڑی تھی۔ یہاں سب سے زیادی تعداد میں بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے مختلف زبانیں بولنے والے ہیں جب کراچی آباد کیا گیا تو یہ شہر جنگلات کا شہر تھا۔ اسے انہی مہاجرین نے ملک کا معاشی حب اور روشنیوں اور ترقی یافتہ شہر بنایا۔ ایوب خان نے نفرت اور عصبیت کی سیاست کرتے ہوئے کراچی کی مرکزی حیثیت ختم کرکے اسے دار ا لحکومت سے ختم کرکے سندھ کا دارلخلافہ بنادیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے لسانیت کی ابتدا کی اور مہاجروں کو ایک قوم اور سندھی بنانے کے بجائے دو حصوں میں تقسیم کردیا اور ان پر کوٹہ سسٹم کی تلوار لٹکادی۔ یہاں سے قائد اعظم کے کئے گئے فیصلوں کی خلاف ورزی شروع ہوئی۔ پہلے ملک دو لخت ہوا اور اسکے بعد عصبیت اور قوم پرستی کا ز ہر ملک بھر میں پروان چڑھنے لگا۔ آج کے پاکستان میں قوم پرستی عروج پر ہے اور حد تو یہ ہے کہ قوم پرستی کی بنیاد پر الیکشن جیتے جا رہے ہیں۔ 2013کا الیکشن اسکی کھلی مثال ہے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ نواز شریف پنجابی ووٹ، پیپلزپارٹی سندھی ووٹ، پی ٹی آئی پختون ووٹ، بلوچستان بلوچ ووٹ پر کامیاب ہوئیں اور انکی حکومتیں بھی اسی مینڈیٹ پر بنی ہیں۔ سندھ کی دوسری بڑی جماعت ایم کیو ایم مہاجر ووٹ پر کامیاب ہوئی۔ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو پاکستان میں قوم پرستی کی سیاست سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ کراچی پورے ملک کو پالتا ہے۔ وفاق کو 70فیصد ٹیکس یہ ادا کرتا ہے جبکہ صوبہ کو بھی 60فیصد سے زائد اسکے ٹیکس سے صوبہ چلانے کو ملتا ہے۔ لیکن افسوس اس شہر کو 2سے 8فیصد تک کا فنڈ دیا جاتا ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ کراچی میں 143 ادارے ہیں جو کراچی کے دعویدار ہیں لیکن ارباب اقتدار کو صرف ایک ادارہ نظر آتا ہے جو بلدیہ عظمیٰ کراچی کاہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بلدیہ عظمی کراچی کے پاس صرف33فیصد لینڈ کنٹرول ہے۔ جبکہ جو ادارے یہاں کام کر رہے ہیں ان کے پاس 67 فیصد لینڈ کنٹرول دیگر اد اروں کے پاس ہے جس میں کنٹونمنٹ کے پاس بھی بڑا لینڈ کنٹرول ہے۔ دیگر اداروں میں کے ڈی اے، ایل ڈی اے، ایم ڈی اے، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کراچی واٹر سیوریج بورڈ، کنٹونمنٹ مختلف ادارے،کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، چھ ڈی ایم سیز، ڈسٹرکٹ کونسل، لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ، بورڈ آف ریونیو، ڈپٹی کمشنرز، کمشنرز، سندھ کچی آبادی، انتظامیہ کے مختلف یونٹس، پولیس ڈپارٹمنٹ ، پورٹ ٹرسٹ، پاکستان پوسٹ، ریلوے، ڈیفنس اتھارٹیز، سوئی گیس، ترقیات ، کے الیکٹرک سمیت 143 اداروں سمیت متعدد شامل ہیں لیکن میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ صرف بلدیہ عظمی کراچی کو نشانہ بناتے ہیں ۔ اس میں یہ بات بھی واضح رہے کہ کے ایم سی کہیں بھی آگ لگ جائے علاقہ اسکا ہو نہ ہو آگ بجھانے جاتی ہے یہ اسکی بہت اچھی اور انسانیت دوست حکمت عملی و کارکردگی ہے ۔ بارش ہو شہر جل تھل ہوجائے ساری لعنت ملامت کے ایم سی کے لئے ہوتی ہے کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ علاقہ کے ایم سی کا نہیں کنٹونمنٹ کا ہے انہیں یہ پانی ڈسپوز آف کرنا تھا ۔ کے ایم سی کی لینڈ پر گنتی کی چائنا کٹنگ ہوگی جبکہ حکومت سندھ کے چہیتے ادارے کے ڈی اے کی چائنا کٹنگ کی کہانی رکنے کا نام ہی نہیں لے گی یہی حال ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ملے گا۔ لیکن بدنامی میں کے ایم سی ، گھوسٹ ورکرز کا ذکر ہو کے ایم سی کا ذکر سب سے پہلے ، وزیر بلدیات تو 28ہزار گھوسٹ ورکرز بتا چکے ہیں جبکہ کے ایم سی کے ملازمین کی کل تعداد 15ہزار سے بھی کم ہے۔ کے ایم سی کوئی غلط کام کردے سڑک بنے اور بیٹھ جائے تو سارا میڈیا میئر کراچی کے لتے لے رہا ہوگا۔ صفورا، میمن اسپتال ، سعدی ٹاﺅن روڈ، سمیرا بنگلوز کی طرف اے ایس ایف پروجیکٹ بن رہا ہے ڈبل روڈ بنائی گئئی صرف ایک ہفتے میں اکھڑ گئی کسی نے کنٹونمنٹ کی خبر نہیں لی۔ اس بارش میں نئی رم جھم ٹاور سے جانے والی سڑک کا کیا حال ہوا ہے جا کر دیکھ لیجئے۔ اکھڑ کر قبرستان کا منظر پیش کر رہی ہے لیکن میڈیا کو یہ علاقے نظر نہیں آتے یا پھر معلومات درست نہ ہونے کے سبب وہ کے ایم سی کو ہر کام کا مورد الزام ٹھر ا دیتے ہیں۔ اب آجایئے جناب کے ایم سی کے ساتھ سڑک جو لائٹ ہاﺅس اور سٹی کورٹ کا سنگم ہے سارا دن پانی جمع ہونے کی خبر چلتی رہی۔ جبکہ صبح ہی ڈی واٹرنگ پمپ کے ایم سی لگا چکی تھی۔ پانی کے ایم سی کے داخلی دروازے پر بھی تھا جسے سٹی وارڈنز نکال رہے تھے ۔ لیکن یہ علاقہ صفائی کے لحاظ سے اوربارش کا پانی نکالنے کے لحاظ سے بلدیہ جنوبی کا ہے لیکن وہی مرغی کی ایک ٹانگ بلدیہ عظمیٰ کراچی ٹارگٹ پر اس سڑک پر غیر قانونی چارجڈ پارکنگ ہو رہی ہے جو ڈی ایم سی ساﺅتھ کر رہی ہے ایک تو یہ انکا کام نہیں دوسرا اس سڑک پر پارکنگ کا جواز نہیں یہ کے ایم سی کے آﺅٹ گیٹ کے ساتھ ہے۔ اس سے پہلے یہاں غیر قانونی پارکنگ پر گاڑیاں اٹھا کر لیجایا کرتے تھے۔ ایک تو یہ سیکیورٹی رسک ہے یہاں پارکنگ کے ایم سی میں خدانخواستہ کسی حادثے کا سبب بن سکتی ہے لیکن اس پر میڈیا خاموش ؟ ّخر کیوں ۔ پانی کی نکاسی نہ ہو کوئی موقع کے ایم سی کے خلاف نہیں جانے دیا جاتا لیکن سیوریج درست نہ ہو تو بھی قصور وار کے ایم سی کو ٹھرا یا جاتا ہے۔ یہی فضا اسوقت کے ایم سی کے لئے چل رہی ہے کروڑوں کا حساب اس شخص سے مانگا جا رہا ہے جسے فنڈز ملے ہی نہیں ۔ میئر بننے سے پہلے وزیر موصوف کے ساتھی ثاقب سومرو کروڑوں روپے نالوں کی صفائی کی مد میں لیکر چلتے بنے ۔ جبکہ گزشتہ برس کی صفائی کا کام کمشنر کراچی اور ڈپٹی کمشنرز کی زیر نگرانی ہوا اور رقم بھی انہی کی معرفت خرچ ہوئی ۔ جس میں سب سے زیادہ گجر نالہ کا ذکر تھا۔ اسکی ویڈیو کوریج روزانہ میٹرو چینل کرتا رہا۔ اب حساب اسکا میئر کراچی سے مانگا جا رہا ہے۔ حیرت انگیز بات ہے جبکہ یہ عمل کرنے سے پہلے باقاعدہ خبر اور نوٹیفیکیشن جاری ہوا جس میں ایڈمنسٹریٹر کو ترقیاتی اور نالوں کی صفائی کے سلسلے میں کمشنر کا ڈی ایم سیز کو ڈپٹی کمشنر کا ماتحت کیا گیا اور انکی زیر نگرانی کیماڑی، لیاری، ناظم آباد سمیت شہر کے تمام بڑے نالے اور تجاوزات ختم کی گئیں۔ یہ سب رقم کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کی مرضی سے خرچ ہوئی اسوقت شرجیل میمن اور بعد میں ناصر شاہ نے ان کاموں کی نگرانی کی ۔