پشاور میں علما کا مولانا پوپلزئی کی ملک بدری پر اظہار تشویش
یار دوست تو سمجھتے تھے مولانا پوپلزئی سیر تفریح یا تبلیغی دورے پر ملک سے باہر ہیں یا سرکاری عمرہ پیکج سے مستفید ہو رہے ہیں۔ الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ مولانا جہاں بھی رہیں خوش رہیں۔ اپنے خرچے پر رہیں یا حکومت کے خرچے پر کسی کو کچھ لینا دینا نہیں۔ پاکستانی اس خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے کہ اس بار ماہ رمضان میں ہی مولانا ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ یوں قوم کو ایک ہی عید روزسعید منانے کی سعادت نصیب ہو گی۔ مگر برا ہو مولانا کے چیلے چانٹوں کا جو ان کی غیر موجودگی میں بھی اپنا لُچ تلنے سے باز نہیں آئے اور نہایت چالاکی سے وار کر گئے۔ مگر یہ وار کارگر ثابت نہ ہوا۔
بہت کم لوگوں نے ان کے چاند پر یقین کیا۔ اب پشاور کے چند علما کا خیال ہے کہ پوپلزئی صاحب سیر تفریح یا تبلیغ پر نہیں گئے نہ ہی عمرہ پر گئے ہیں۔ انہیں ملک بدر کیا گیا ہے۔ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ رمضان خیر خیریت سے گزر گیا۔ عید پرسکون رہی اب یہ مولانا کے چاہنے والوں کو پتہ چلا کہ مولانا چن چڑھانے کیوں نہیں آئے۔ یہ لوگ تو لگتا ہے مولانا کا رخ زیبا دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔ ویسے مولانا کی یہ ملک بدری معلوم نہیں خود ساختہ ہے یا جبری۔ اگر جبری ہوتی تو ماہ ڈیڑھ ماہ یہ شور مچانے والے خاموش کیوں رہے۔ انہیں سانپ کیوں سونگھ گیا تھا۔ ہو سکتا ہے مولانا پوپلزئی نے حکومت اور عوام میں اپنی بے قدری دیکھ کر خود ہی خود ساختہ جلاوطنی اختیار کر لی ہو۔ وجہ جو بھی ہو ملک میں ایک ہی روز عید منانے والوں نے اس پر سکھ کا سانس لیا ہے…
٭٭٭٭٭٭
جب کوئی انسان خود کو برتر اور دوسروں کو کم تر سمجھنے لگے تو بہت جلد وہ تقدیر کے چکر میں آ جاتا ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ سارا خاندان صوبے کا حکمران ہو۔ صوبے کی پولیس میں اتنی جرأت نہ ہو کہ ملزم کو ہتھکڑی لگائے۔ پولیس افسران ملزم کو سلیوٹ کر کے تھانے سے عدالت لاتے لے جاتے ہوں۔ جیل جا کر بھی ملزم کے ماتھے اور کپڑوں پر شکن تک نہ آئے۔
زیادہ پرانی بات نہیں کراچی میں ایک خوبرو جوان اعلیٰ افسر کے بیٹے کو ایک اعلیٰ سیاسی خاندان کے بگڑے ہوئے رئیس زادے نے اور پنجاب میں ایک بڑے سیاسی خانوادے کے بدمست شہزادے نے ایک نوجوان کو موت کے گھاٹ اتارا۔ مگر یہ لوگ ابھی تک تقدیر کے چکر میں نہیں آئے اس لئے بچ گئے۔ شاید تقدیر بھی پہلے گناہ سے قطع نظر کر لیتی ہے۔ مگر یہ مجید اچکزئی صاحب تو بار بار موقع ملنے کے باوجود سبق نہیں سیکھ پائے۔
اب پتہ چلا کہ موصوف کو تیسرے مقدمے میں بھی ریمانڈ پر دے دیا گیا ہے۔ سارجنٹ کے گھر والوں کی آہ لگتا ہے کچھ زیادہ ہی اثر کر گئی اور سارجنٹ کی ہلاکت اپنے ساتھ کچھ عرصہ قبل کے اغوا برائے تاوان اور 25 سال پرانے ایک مقدمہ قتل کی کہانی بھی سب کو یاد کرا گئی ہے۔ اب کوئی
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
والا شعر کہہ کر دل کے پھپھولے پھوڑے تو الگ بات ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ’’خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا‘‘ اسلئے انسان کو ہمیشہ اپنے ’’کینڈے‘‘ میں ہی رہنا چاہئے۔ ورنہ بعدازاں پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ یہی کچھ یہاں بھی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ امید ہے اب اچکزئی صاحب بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے۔ صوبہ اپنا حکومت اپنی وزیر اپنے گورنر اپنا تو میں تنہا جیل میں کیوں چکی پیس رہا ہوں!
٭٭٭٭٭٭
مودی کا اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ ہولوکاسٹ یادگار کا دورہ
معلوم نہیں بھارتی وزیراعظم اس یادگار کا دورہ کر کے خوش ہوئے ہیں یا مغموم۔ کیونکہ انہوں نے اس جگہ کا دورہ کسی یہودی کی محبت میں نہیں کیا نہ انہیں ہولوکاسٹ میں مرنے والوں کا غم ہے۔ انہوں نے یہ دورہ صرف ہٹلر کی محبت میں کیا ہے تاکہ دیکھ سکیں کہ اس نے اتنے بندے مارے کس طرح۔ مودی کی بھارت میں اس وقت وہی حیثیت ہے جو جرمنی میں ہولوکاسٹ کے وقت ہٹلر کی تھی۔ مودی کے دور حکومت میں پورے بھارت میں مسلمانوں کے لئے ہر شہر میں دیہات میں ہولوکاسٹ کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ بھارت کے طول و عرض میں مسلمانوں کا جس طرح قتل عام ہو رہا ہے اس کے بعد تو بھارت میں جگہ جگہ اسی طرح کی یادگاریں قائم کی جا سکتی ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے مودی نے نیتن یاہو سے کشمیر کی صورتحال قابو کرنے کے مشورے بھی مانگے ہوں۔ جواب میں نیتن یاہو جی نے انہیں کشمیر میں ہولوکاسٹ جیسی کارروائی کرنے کا مشورہ دیا ہو۔ جس کے بعد کشمیر میں بھی ایسی ہی یادگاریں قائم کرنے کیلئے اسرائیلی مشاورت و معاونت کی مفت فراہمی پر رضامندی بھی ظاہر کی ہو۔ ویسے وہ کیا سین ہو گا جب ہٹلر سے بھی بڑا ظالم اور قاتل یہودی مقتولین کی یادگار کے سامنے کھڑا بظاہر ٹسوے بہا رہا ہو گا مگر دل ہی دل میں مسکرا رہا ہو گا۔
٭٭٭٭٭٭
نوازشریف ہر بار وزیراعظم بنیں گے۔ روک سکتے ہو تو روک لو: مریم نواز
جی آئی ٹی میں پیشی سے قبل مریم نواز کو جس طرح بیگم کلثوم نواز نے قرآن کے سائے تلے رخصت کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حالات کی سنگینی کا احساس سب کو ہے۔ مریم نواز نے اپنی سیاسی تربیت کا مظاہرہ اس وقت کیا جب وہ کار سے نکل کر نعرے لگاتے کارکنوں کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتی ہوئی جی آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے لئے جوڈیشنل اکیڈمی میں داخل ہوئیں۔ اس وقت تک وہ پرجوش تھیں مسکرا رہی تھیں ‘باہر آئیں تو شدت جذبات سے خوب گرجیں بھی اور برسیں بھی۔ یوں سیاسی میدان میں جی آئی ٹی کے پلیٹ فارم سے ان کی دبنگ انٹری ہوئی۔ اس لمحہ موجود کا عرصہ سے انتظار تھا۔ تربیت تو کافی عرصہ سے ہو رہی تھی مگر سیاست میں ان کی انٹری کے لئے کسی سعد وقت کا انتظار تھا۔ وہ تو نہیں آیا مگر شدید گھٹن کے موسم میں شدت کی سیاسی جنگ میں انہوں نے اپنی سیاسی اننگز کا آغاز کر دیا ہے۔ یوں شریف خاندان کی تین نسلوں کے احتساب کے دوران دوسری نسل کا ایک اور نمائندہ سیاسی میدان میں قدم جمانے میں کامیاب ہو گیا۔ پہلے حمزہ شہباز شریف پنجاب میں عملاً پارٹی کے تنظیمی امور اور سیاسی معاملات جنہیں ہاف حکومتی بھی کہہ سکتے ہیں چلا رہے ہیں۔ اب مریم نواز بھی وفاقی سطح پر پارٹی کے سیاسی امور تو پہلے سے چلا رہی تھیں۔ اگلے الیکشن میں حکومتی امور سنبھالتی نظر آ رہی ہیں…
٭٭٭٭٭٭