بھٹو مرحوم' فاشسٹ ہٹلر سے بہت متاثر تھے شایداسی لئے بدترین آمر ہٹلر سے بھٹو صاحب کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ مخالفین ہی نہیں اپنے کارکن بھی بھٹو مرحوم کی "افتادِ طبع" کا شکار ہوتے رہتے تھے۔
پیپلزپارٹی کے کارکنوں کیلئے بنایا جانے والا دلائی (دْھلائی) کیمپ' وہ عقوبت خانہ اور فیڈرل سکیورٹی فورس کے تباہی پھیلانے والے دستے ہٹلر دور کی یاد دلاتے تھے۔ بھٹوصاحب تو اس معاملے میں ہٹلر سے بھی دوہاتھ آگے نکل گئے تھے کہ ہٹلرکے مظالم کا نشانہ توصرف مخالفین بنتے تھے جبکہ بھٹوصاحب جس پر بھی ناراض ہوئے اپنا ہو یا بیگانہ اس پر عرصہ حیات تنگ کردیا جاتا تھا۔افتخار طاری، چودھری ارشاد، اور بزرگ جے اے رحیم اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بھٹو مرحوم اپنوں اور بیگانوں ساتھیوں اور مخالفوں کوایک ہی ڈانگ سے ہانکنے کے قائل تھے۔ کوئی انسان بھی کامل نہیں ہوتا خوبیاں خرابیاں، اچھائیاں برائیاں مل کر شخصیت کا پرتو بناتی ہیں دانشمند وہ ہوتے ہیں جو خرابیوں اور کمیوں کوتاہیوں پر قابو پانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ بھٹو صاحب تو تادم آخر اپنے ظلم و جبر پر ذرا شرمندہ نہ ہوئے اور اصلاح احوال کی کوشش تو انہوں نے کیاکرنا تھی۔ بلوچستان اور صوبہ سرحد کی صوبائی حکومتوں کی تحلیل، گورنر راج کا نفاذ اوراس کے بعد بلوچستان میں فوجی آپریشن، یہ سب کچھ بھٹومرحوم کی جمہوریت نوازی کا ’منہ بولتا‘ ثبوت ہیں۔
اسی طرح نوجوان احمد رضا قصوری، بھٹوکا عاشق زار تھا لیکن مشرقی پاکستان کے حوالے سے بھٹو کی حکمت عملی سے اختلاف کر بیٹھا پھر کیا تھا بھٹو صاحب کے غیض و غضب کا ایسا نشانہ بنا کہ خود تو قاتلانہ حملے میں بچ گیا لیکن اس کے والد نواب محمد احمد خان مارے گئے جنکے مقدمہ قتل میں بالآخر بھٹو شہید کا ’عدالتی قتل‘ کیا گیا۔
اپنے مختصر دور اقتدار میں ہر ضمنی انتخاب میں کھلے عام دھاندلی کی یا کروائی اور پھر 1977ء کے عام انتخابات میں تو سارے ریکارڈ ہی ٹوٹ گئے۔ جان محمد عباسی مرحوم کو اغوا کروا کے ’قائد عوام‘ خود بلامقابلہ منتخب ہوئے توچاروں وزراء اعلیٰ کیسے پیچھے رہتے وہ سب بھی بلامقابلہ منتخب ہوگئے بعدازاں بھٹو مرحوم بڑے دھڑلے سے انتخابی عذر داریوں میں اپنے اس بلامقابلہ انتخاب کا دفاع کرتے رہے۔ اٹارنی جنرل یحییٰ بختیار عدالتوں میں ان کی نمائندگی کرتے تھے۔ ووٹ کی حرمت اور انتخابی عمل کو جس طرح بھٹو مرحوم نے بار بار پامال کیا، قدموں تلے روندا یہ تلخ حقیقت ہے لیکن کوئی اس کا ذکر کرنے کو تیار نہیں۔اسے جنگ عظیم دوم میں ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کو (Holocaust) نام نہاد تقدس کا درجہ دے دیا گیا ہے کہ اب مہذب دنیا میں کوئی اس کے اعداد و شمار کو چیلنج نہیں کر سکتا سارے مہذب یورپ میں اس پر تحقیق کے لئے تنقیدی جائزہ لینا بھی سنگین جرم بنا دیا گیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے انہیں بچاؤ کا راستہ فراہم کیا تھا لیکن بھٹو مرحوم نے سول مارشل لا اور فوجی عدالتوں کے خلاف ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا وقت مٹھی میں بند ریت کی طرح ان کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا تھا 3 جون تک اس بے مثل عوامی تحریک میں 1ہزار کارکن شہید ہوچکے تھے مسلح افواج کے تینوں سربراہ بھٹو مرحوم کی مکمل اطاعت کا اعلان کر چکے تھے یہ اس عالی دماغ عالمی رہنما کے تابوت میں آخری کیل تھا جسے سمجھنے سے مرحوم بھٹو قاصر ہو چکے تھے اب کہا جاتا ہے کہ قومی اتحاد اور بھٹو مرحوم کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو چکے تھے کہ 5 جولائی کی صبح مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔ اس حوالے سے پروفیسر غفور احمد کی کتاب ''اور پھر مارشل لا آگیا'' کا حوالا دیا جاتا ہے جو کہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہیں یکم جولائی 1977 کو بھٹو مرحوم قومی اتحاد کے رہنماؤں کو فوجی جرنیلوں سے بریفنگ لینے پر مناتے رہے جبکہ مفتی محمود مرحوم اور نوابزادہ نصراللہ خاں سیاسی معاملات میں جرنیلوں کو درمیان میں لانے کی مخالفت کر رہے تھے۔ اس کتاب کے مطابق ولی خاں اور بیگم نسیم ولی خاں مارشل لا لگوانے کی تجویز دے ہے تھے اور پھر 5 جولائی کے مارشل لا سے صرف چند گھنٹے پہلے 4 جولائی 1977 کی بھٹومرحوم کی پریس کانفرنس کسی کو یاد نہیں جس میں انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ قومی اتحاد 10نئی شرائط پیش کررہا ہے پروفیسر غفور لکھتے ہیں کہ بھٹو مرحوم کا یہ الزام سراسر خلاف واقعہ تھا کہ ہم نے کوئی 10 شرائط پیش کی تھیں اپنی کتاب کے صفحہ 248 کے آخری پیرا گراف میں لکھتے ہیں:''بھٹو صاحب کی پریس کانفرنس سے مجموعی تاثریہ ملا کہ مذاکرات پھر تعطل کا شکارہوگئے ہیں۔‘‘
5 جولائی کی صبح اپنی گرفتاری کا احوال بیان کرتے ہوئے پروفیسر غفور لکھتے ہیں فوجی جوانوں نے میری رہائش گاہ میں گھس کر مجھے حراست میں لے لیا میں نے ان سے پوچھا آپ فوج سے ہویا ایف ایس ایف سے تو انہوں نے اپنی فوجی یونٹ کارڈ دکھائے مجھے ایک بیرک میں لے جایا گیا جہاں عبدالحفیظ پیرزادہ بھی لائے جا چکے تھے ۔
پروفیسر غفور احمد صفحہ 254پر انکشاف کرتے ہیں ''پیرزادہ میرے پاس آئے اورکہا حالات نازک ہیں اب ہمیں جلد کسی مفاہمت پر پہنچ جانا چاہئے یہ خیال ان کو اس وقت آیا جب چڑیاں کھیت جگ چکی تھیں''۔
یہ ہے مذاکرات کی کامیابی کے بعد 5 جولائی کے مارشل لا آنے کی اصل حقیقت دراصل بھٹو مرحوم مذاکرات کا کھیل کھیلتے ہوئے وقت حاصل کر رہے تھے کہ عوامی تحریک کو کسی طرح کمزور کیا جا سکے وہ وقت سے، زمانے سے کھیل رہے تھے جبکہ بہتر تدبیر کرنے والا، ان کے مکروفریب کا توڑ کر رہا تھا پاکستان پر مارشل لا کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے۔ اور اب من پسند نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے جبکہ اس وقت کے اہم کردار زندہ و جاوید موجود ہیں آج بھٹو مرحوم کے مقابل ڈٹ جانے والے شاعر عوام حبیب جالب یاد آرہے ہیں ان کے دوہے اور گیت سماعتوں میں گونج رہے ہیں
اور سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا
رہ گیا کام ہمارا ہی بغاوت لکھنا
لاکھ کہتے رہیں ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھا ہی نہیں پیارے بااجازت لکھنا
نہ صلہ کی نہ ستائش کی تمنا ہم کو
حق میں لوگوں کے ہماری تو نہیں عادت لکھنا
ہم نے جو بھول کے بھی شاہ کا قصیدہ نہ لکھا
شائد آیا اسی خوبی کی بدولت لکھنا
اْس سے بڑھ کر میری تحسین بھلا کیا ہو گی
پڑھ کے ناخوش ہیں میرے صاحب ثروت لکھنا
دھر کے غم سے ہوا ربط تو ہم بھول گئے
سرو قامت کی جوانی کو قیامت لکھنا
کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شاہ کے مصاحب
جالب رنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا؟
٭…٭…٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024