وزیراعظم کو بے وقت کی راگنی کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟
وزیراعظم نوازشریف نے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کے نام خصوصی خط میں کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کو جاری رہنا چاہئے۔ پاکستان بھارت تعلقات 1999ءکے اسی موڑ سے دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے جب سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے اور پاکستان کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ دونوں ممالک میں تجارتی اور سفارتی سطح پر تعلقات میں بحالی سے ہی خطے کا امن مشروط ہے۔ ماضی میں دونوں ملکوں میں جنگوں کا نقصان دونوں ممالک کے عوام نے اٹھایا ہے، خطے میں امن کیلئے دونوں ملکوں کو محاذ آرائی سے گریز کرنا چاہئے تاکہ صحیح انداز میں اپنے عوام کی خدمت جاری رکھ سکیں۔ وزیراعظم کا خصوصی خط بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کو نوازشریف کے خصوصی نمائندے شہریار خان نے بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کے دوران پہنچایا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے خط میں پاکستان بھارت تعلقات میں بہتری کا اعادہ کیا۔ بھارتی وزیراعظم نے بھی پاکستانی قیادت کیلئے نیک تمناﺅں کا اظہار کیا۔
میاں محمد نواز شریف تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کے اعزاز سے سرفراز ہوئے‘ قبل ازیں وہ 90ءکی دہائی میں دو مرتبہ وزیراعظم رہے لیکن شومئی قسمت دونوں مرتبہ ہی ان کو آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ان کو ہمیشہ سے یہ گلا رہا کہ وہ آئینی مدت پوری کرتے تو پاکستان کو جدید‘ ترقی یافتہ اور خوشحال مملکت بنا دیتے اور مسئلہ کشمیر حل ہو چکا ہوتا۔ نوازشریف برملا کہتے ہیں کہ کارگل مہم جوئی کا مقصد مسئلہ کشمیر کے حل کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا تھا۔ وزیراعظم واجپائی پاکستان آئے مسئلہ کشمیر کے حل میں مثبت پیشرفت ہو رہی تھی کہ مشرف نے سیاسی حکومت‘ بعض جرنیلوں‘ بحریہ اور فضائیہ کے چیفس کو بھی اندھیرے میں رکھ کر کارگل محاذ کھول دیا جس سے مسئلہ کشمیر بہت پیچھے چلا گیا۔ مشرف کیلئے اپنے گھناﺅنے جرائم کا دفاع ممکن نہیں ہے‘ انہوں نے منتخب حکومت کا تختہ اس خوف کے باعث الٹ دیا کہ وہ ان سے کارگل محاذآرائی کا حساب مانگنے والی تھی۔ سیاسی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر کارگل کی مہم جوئی بھیانک جرم سے کم نہیں جس میں 65ءاور 71ءکی باقاعدہ جنگوں سے بھی بڑھ کر فوج کی شہادتیں ہوئیں۔ مشرف کا اس سے بھی بڑا جرم 12 اکتوبر 1999ءکو جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر آئین شکنی کا ارتکاب تھا۔ کشمیر کاز کو مشرف نے ناقابل عمل اور ماورائے عقل حل تجویز کرکے شدید نقصان پہنچایا لیکن یہ میاں نواز شریف کی خوش فہمی ہے کہ واجپائی کے پاکستان آنے سے مسئلہ کشمیر کے حل میں پیشرفت ہوئی تھی اور وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادہ ہو گئے تھے۔ میاں نوازشریف اپنی انتخابی مہم میں عمومی اور انتخابات میں کامیابی کے بعد خصوصی بھارت پر جس طرح ریشہ خطمی ہورہے ہیں‘ اس سے مسئلہ کشمیر کو مشرف کے لایعنی مختلف حلوں کی طرح ہی نقصان پہنچ رہا ہے۔ بلاامتیاز اندرا کانگریس اور واجپائی کی بی جے پی کے ہر بھارتی حکومت اور اپوزیشن پارٹی کا کشمیر کے حوالے سے اٹوٹ انگ کا مو¿قف رہا ہے جس کا گاہے بگاہے یہ پارٹیاں اظہار بھی کرتی ہیں۔ بھارت یو این میں مسئلہ کشمیر خود لے کر گیا اور اقوام متحدہ کی کشمیریوں کو حق رائے کی تجویز کو تسلیم کیا لیکن اس پر 64 سال میں کبھی عمل پر آمادہ نہیں ہوا۔ پچاس کی دہائی میں تو اس نے آئین میں ترمیم کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو اپنی ریاست بھی قرار دے دیا۔ بھارتی سیاست دان برملا کہتے ہیں کہ آزاد کشمیر بھی بھارت کا حصہ ہے۔ یہ راگ وزیر داخلہ چدمبرم نے حالیہ دنوں میں ایک بار پھر الاپا ہے۔ میاں نواز شریف بتائیں کہ کیا وزیراعظم واجپائی اٹوٹ انگ کے موقف سے دستبردار اور بھارتی آئین میں ترمیم کرنے پر تیار ہو گئے تھے جس میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی ریاست قرار دیا گیا ہے؟
میاں نواز شریف حقائق سے نظریں نہ چرائیں‘ وہ بھارت کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانے کیلئے بے تاب ہیں‘ پاکستان اور بھارت کے درمیان بنیادی تنازعہ کشمیر ہے جسے قائداعظم محمدعلی جناح نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا اور اس کو دشمن کے پنجہ استبداد سے چھڑانے کیلئے انگریز قائم مقام آرمی چیف جنرل ڈگلس گریسی کو باقاعدہ لشکر کشی کا حکم دیا تھا۔ قائد کی رحلت کے بعد آنیوالے حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر قوم کے باپ کے ساتھ ہی دفن کر دیا۔ نواز شریف تو اپنی پارٹی کو اقبال و قائد کی پارٹی قرار دیتے اور اکابرین کی جان نشینی کے دعویدار بھی ہیں‘ خود کو قائداعظم ثانی کہلواکر طبیعت میں فرحت محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے پاکستان کی شہ رگ کو واگزار کرانے میں ان کو سب سے بڑھ کر کوشش کرنی چاہیے لیکن انکے بھارت نواز بیانات سے محب وطن حلقوں میں مایوسی پھیل رہی ہے۔
میاں صاحب کی دونوں ملکوں کے درمیان قیام امن کی خواہش بجا ہے‘ کیا ایسی ہی خواہش کا اظہار فریق ثانی نے بھی کیا ہے؟ وہ مذاکرات کی میز پر تو آتا ہے لیکن ان میں کامیابی کی سرمو خواہش موجود نہیں ہوتی۔ اٹوٹ انگ کا موقف اور مذاکرات ساتھ ساتھ چلیں گے تو قیامت تک بے نتیجہ رہیں گے‘ یہی بھارت کی حکمت عملی ہے۔ میاں صاحب کا یہ فلسفہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ” دونوں ممالک میں تجارتی اور سفارتی سطح پر تعلقات میں بحالی سے ہی خطے کا امن مشروط ہے۔“ حالانکہ خطے کا امن مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات تو قائم ہیں‘ میاں صاحب انکی بحالی نجانے کس کو قرار دیتے ہیں؟
منموہن سنگھ کو خط لکھنے کی ٹائمنگ بھی عجیب ہے‘ آپ تو ہمالہ کی چوٹیوں سے گزر کر چین جا رہے ہیں‘ دنیا میں کوئی امن کانفرنس نہیں ہو رہی کہ آپ نے خصوصی پیغام کے ساتھ اپنا ایلچی بھارت روانہ کر دیا۔ پاکستان اور چین کو بھارت اپنا یکساں دشمن سمجھتا ہے‘ چین نے ہمیشہ پاکستان کاز کی حمایت کی اور بعض معاملات میں پاکستان سے بھی بڑھ کر عزم و ارادہ دکھایا ہے۔ اس نے کشمیریوں کے بھارت کے ویزے پر چین میں داخلے پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ بھارتی مقبوضہ کشمیری ایک سادہ دستاویز پر چین جا سکتے ہیں‘ ادھر ہمارے وزیراعظم خود چین جا رہے ہیں اور اس اہم دورے کے موقع پر ایلچی کو پاک چین مشترکہ دشمن کے گھر روانہ کر رہے ہیں۔ جنگ یقیناً تباہی کا سامان ہی بنتی ہے لیکن فریق ثانی جب کوئی راستہ نہ چھوڑے تو پھر جنگ کے سوا چارہ کیا رہ جاتا ہے؟ بھارت کی محبت میں غرقاب میاں نواز شریف مسئلہ کشمیر حل کرالیں پھر سفارتی‘ تجارتی تعلقات اور دوستی کو جس طرح چاہیں فروغ دیں۔ مسئلہ کشمیر چونکہ دنوں میں حل نہیں ہو سکتا اس سے قبل حقیقی اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت ہے جو امریکی صدر کے سابق مشیر بروس ریڈل نے اپنی کتاب میں تجویز کئے ہیں۔ بروس ریڈل نے تو ان تجاویز کو مسئلہ کشمیر کا حل قرار دیا ہے لیکن ان کو پاکستان کے نقطہ نظر سے مسئلہ کشمیر کے حل کی پیشرفت اور اعتماد سازی سے اقدامات قرار دیا جانا چاہیے۔
بروس رےڈل نے صدر باراک اوباما کو مشورہ دےا ہے کہ مسئلہ کشمےر کے حل کے لےے خاموشی لیکن عزم کے ساتھ پاکستان کے دوست ممالک کی کولیشن قائم کرنے پر کام کرنا چاہئے جو کشمیر کے تصفیہ طلب معاملے کو حل کرنے کیلئے متحد ہوکر امن عمل کی حمایت کرے گی، مسئلہ کشمیر کا حل ایسا ہونا چاہئے جس میں لائن آف کنٹرول کو دونوں طرف ایک مستقل اور روایتی بین الاقوامی سرحد ( ممکنہ طور کچھ تبدیلیوں کے ساتھ) تسلیم کیا جائے اور کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان غیر معلق سرحد ہو تاکہ کشمیری عوام معمول کی زندگی جی سکیں۔ کنٹرول لائن کے آر پار رسل و رسائل ، ماحولیات، کھیل کود اور سیاحت جیسے مخصوص علاقائی معاملات پر مشترکہ طور پرکام کرنے کے لئے ایک مشترکہ انتظام قائم کیا جائے۔ کشمیر کے دونوں حصوں میں بھارت اور پاکستان کی کرنسی کا استعمال قانونی بنایا جائے۔اگرچہ یہ حل یو این کی قراردادوں والا حل نہیں لیکن پیش کرنے والا ایک امریکی ہے۔