3 جولائی کی شب مصری فوج نے صدر محمد مرسی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے انہیں زبردستی اور غیر آئینی طریقے سے صدارتی عہدے سے برطرف اور آئین معطل کر دیا۔ عہدے سے برطرف آئینی عدالت کے چیف جج عدلی منصور کی سربراہی عبوری حکومت قائم کی گئی ہے جنہوں نے مصر کی ایپلٹ کورٹ کی مصری وزیراعظم ہشام قندیل کو ایک سال کی سزا برقرار رکھتے ہوئے انہیں بھی اپنے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ صدر اور وزیراعظم سمیت حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں جن کا تعلق اخوان المسلمون سے ہے ان سب کو فوج نے گرفتار کر لیا ہے اور انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ رائٹر کے مطابق صدر مرسی اور ہاشم قندیل سمیت اخوان المسلمون کے 40 رہنماﺅں کے ناموں کی فہرست ائر پورٹ پولیس کو بھیج دی گئی ہے تاکہ وہ ملک سے باہر نہ جا سکیں۔ اخوان المسلمون کی قائم کردہ اسلامی جمہوری حکومت کا تختہ فوج، عدلیہ، مذہبی رہنماﺅں اور سیکولر طاقتوں کی باہمی گٹھ سے اسی طرح الٹا گیا ہے جیسے 1977ءمیں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ فوج اور پاکستان قومی اتحاد نے باہمی اشتراک سے الٹا دیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اخوان المسلمون کے سربراہ صدر مرسی کٹر اسلام پسند رہنما ہیں اور وہ جلدی میں مصری دستور میں اسلامی شقوں کو ڈال رہے تھے جبکہ ذوالفقار علی بھٹو ایک معتدل اور ماڈرن مسلم رہنما ہونے کے باوجود 1973ءکے آئین میں قادیانیوں کو اقلیت، شراب پر پابندی اور جمعہ کی سرکاری تعطیل کا اعلان کر چکے تھے مگر دونوں رہنماﺅں میں جو مشترکہ خصوصیات تھیں وہ یہ کہ دونوں کو سامراج اور سٹیٹس کو کی مخالفت اور انکے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کی پاداش میں منظرعام سے ہٹایا گیا۔ چونکہ سی آئی اے نے سوویت یونین کیخلاف پراکسی جنگ لڑنا تھی لہٰذا فوج اور ملاﺅں کے باہمی گٹھ جوڑ سے بھٹو کو تخت دار تک پہنچا دیا گیا۔ مصر میں جمال عبدالناصر، انور السادات اور صدر مرسی جیسے آزادانہ ذہن رکھنے والے لیڈر حکمران ہوں۔ اگرچہ جمال عبدالناصر اور انور السادات بالآخر امریکہ اور برطانیہ کے سامنے کسی حد تک جھک گئے تھے۔ جمال عبدالناصر نے نہر سویز کے مسئلے پر اور انور السادات نے سوویت یونین سے مایوس ہو کر اپنے ملکی مفادات میں کیمپ ڈیوڈ سمجھوتہ کے تحت اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا مگر بھٹو یا شاہ فیصل، لیبیا کے معمر قذافی کو بالاآخر عالمی سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔ ایک سال پیشتر جب مصر میں 28 سال سے حکومت کرنے والے آمر حسنی مبارک کو عہدے سے معزول ہونا پڑا تو ایسا دکھائی دینے لگا کہ مصر میں جمہوریت کو فروغ ملے گا اور محمد البرادی صدر بن جائے گا مگر مصر کے عوام نے اخوان المسلمون کی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی دلائی۔ اخوان المسلمون کے سیاسی ونگ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی نے حکومت قائم کر لی اور اپنے ساتھ حکومت میں سلفیوں اور عیسائی قبطیوں کو بھی اہم وزارتیں دیں مگر محمد مرسی نے فلسطینی اتھارٹی کی حمایت کرنا شروع کر دی اور اسکے ساتھ ہی ایران سے تعلقات کی بحالی کی طرف رجوع کیا ۔
محمد مرسی کے ہٹ دھرم مزاج کو دیکھتے ہوئے ان کیخلاف بیرونی حمایت سے مصر کی اسٹیبلشمنٹ نے ان کو ناکام بنانے کیلئے ریشہ دوانیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ محمد مرسی کو چاہئے تھا کہ وہ ترکی کے صدر طیب اردگان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آہستہ آہستہ فوج کے اثر و رسوخ کو کم کرتے مگر اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے 30 جون 2012ءکو اس وقت کے طاقتور آرمی چیف محمد حسین طنطاوی کو برطرف کر دیا اور جنرل عبدالفتح خلیل السیسی کو متعدد سینئر جنرلوں پر ترجیح دیکر آرمی چیف مقرر کر دیا مگر صدر مرسی کو اپنے پسندیدہ آرمی چیف کے ہاتھوں اسی طرح معزول ہونا پڑا جس طرح ضیاالحق کے ہاتھوں بھٹو اور مشرف کے ہاتھوں نواز شریف کو اقتدار سے معزول ہونا پڑا۔ بھٹو کو ضیاالحق نے پھانسی دیدی، نواز شریف کو پرویز مشرف کے ہاتھوں ملک سے جلا وطن ہونا پڑا، اب دیکھنا ہے کہ مصری آرمی چیف اپنے محسن صدر مرسی سے کیا سلوک کرتے ہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ اقتدار کی ہوس میں محسن کشی ایک عام روایت ہے۔صدر محمد مرسی کے ترجمان نے کہا کہ صدر مرسی اپنی جان دیدینگے مگر کسی غیر آئینی طریقے سے اقتدار نہیں چھوڑیں گے مگر محسن کش آرمی چیف نے کہا کہ وہ دہشت گردوں اور بے وقوفوں کی حمایت نہیں کرینگے۔ اس نے محمد البرادی اور سیکولر پارٹیوں سے حکومت کا تختہ الٹنے کے معاملے پر طویل مذاکرات کئے اور منگل کی رات مصر کی اپوزیشن پارٹیوں نے صدر مرسی کی طرف سے مخلوط نظام حکومت قائم کر کے اسکے تحت انتخابات کرانے کو مسترد کر دیا بالکل اسی طرح جیسے ذوالفقار علی بھٹو کے قومی اتحاد کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو اصغر خان نے سبوتاژ کر کے فوج کے اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کر دی۔ جس طرح ہماری عدالتوں نے نظریہ ضرورت کے تحت آئین معطل ہونے کو قانونی جواز فراہم کیا وہاں مصر کی آئینی حکومت کا سربراہ پہلے ہی اسلامی حکومت کیخلاف تھا۔ حد تو یہ ہے کہ سرکاری مُلا جامعہ الازہر کے شیخ احمد الطیب نے فوجی اقدام کی حمایت کر دی ہے اور حکومت میں موجود مذہبی طبقے جو ہمارے ہاں جمعیت علمائے اسلام کہلاتے ہیں وہاں کے سلفیوں کی النور پارٹی بھی غیر جانبداری کی آڑ میں صدر مرسی کی حمایت سے پیچھے ہٹ گئی۔ سرکاری مولویوں نے ان مظاہرین کی حوصلہ افزائی میں فتوے دئیے۔
آج مصر کے سرمایہ داروں، کاروباری حضرات، فوج، عدلیہ اور بیورو کریسی نے مل کر صدر مرسی کی حکومت کو ختم کر دیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں کے مصر کے معاشی حالات کو خراب کر دیا، ٹورازم کی انڈسٹری کو تباہ کر دیا، عالمی ادارے مصر کو قرضے نہیں دے رہے ہیں مگر غریبوں کیلئے صدر مرسی کی حکومت نے گندم کی ریکارڈ پیداوار حاصل کی اور اقوام متحدہ کے ادارہ فوڈ پروگرام نے مصر کی حکومت کو خصوصی شیلڈ دی اور آفر کی کہ اگر مصر یہ فالتو گندم کسی غریب ملک کو دینا چاہے تو اقوام متحدہ اس کی نقل و حمل کے اخراجات برداشت کریگا جبکہ اسکے برعکس سرمایہ دار ملک امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا فالتو گندم دریا بُرد کر دیتے ہیں تاکہ عالمی منڈی میں ان کی گندم کی طلب برقرار رہے۔
اگرچہ صدر مرسی نے سیاسی ناتجربہ کاری کی بنیاد پر لازماً کچھ غلطیاں کیں، صدارتی حکم کے تحت پورے ملک پر مرضی کا آئین نافذ کرنے کی کوشش کی اور جب اس میں ناکامی ہوفی تو یہ آئین ریفرنڈم کے ذریعے منظور کرا لیا اور مخلوط حکومت سے شامل دوسری جماعتوں کے وزراءکو اپنے اقدامات کے سلسلے میں اعتماد میں نہ لیا جس سے وہ سیاسی تنہائی کا شکار ہوتے چلے گئے اور ان کے مخالفین نے احتجاجی مظاہرے شروع کر دئیے۔ یہ مصر کی بدقسمتی ہے کہ حسنی مبارک جیسے آمر کو 28 سال دینے والوں نے اخوان المسلمون کی جمہوری حکومت کو ایک سال بھی دینا گوارا نہ کیا تو پھر کہاں کا عرب سپرنگ اور جمہوری انقلاب۔ لگتا ہے مشرق وسطیٰ میں عرب سپرنگ محض عوام کے جذبات کے کتھارسس کا ایک ذریعہ تھا وگرنہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے گماشتے وہ ممالک جہاں انکے سیاسی، سٹرٹیجک اور معاشی مفادات ہوتے ہیں وہاں آزادانہ جمہوری نظام کے تحت منتخب عوامی لیڈروں کو قطعاً برداشت نہیں کرتے ہیں۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024