مےاں نوازشرےف نے اپنے وزےروں اورسےکرٹرےوں کو اےک خط لکھا ہے جس مےں اُن کو ےہ ہداےت جاری کی گئی ہے کہ وہ اپنے محکموں مےں بدعنوان افسروں کے کنٹرےکٹ منسوخ کرکے اہم عہدوں پر بے داغ کردار کے حامل اےماندار افسروں کو تعےنات کرےں۔ مزےد ےہ کہ عوام کے ساتھ غےرمناسب سلوک روا رکھنے والے نااہل اور کرپٹ اہلکاروں کو برطرف کرنابھی ضروری ہے اس سے عوام کی نظروں مےں حکومت کا امےج بہتر بنانے مےں مدد ملے گی۔ کےونکہ شفافےت اور قانون وقواعد کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھنے سے ہی نظم ونسق کے بہتر مقاصد حاصل کےے جا سکتے ہےں۔ عام طور پر کرپشن کے اسباب دو طرےقوں سے پےدا ہوتے ہےں۔ نااہل لوگوں کا اہم عہدوں پر تعےنات کےا جانا اور دوسرے منظورِ نظر افسروں کو نوازنا۔ پسندےدہ لوگوں کو اہم عہدوں سے نوازنے کا مرض بڑا پرانا ہے۔ قےامِ پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہی ملک کا انتظامی ڈھانچہ کمزور پڑنا شروع ہو گےا تھاجس کی نشاندہی پہلی بار جسٹس اے آر کارنےلےس کی رپورٹ مےں کی گئی تھی۔ 1959 کو اےک کمےشن کا قےام عمل مےں لاےا گےا تھا جس کا مقصد بےوروکرےسی کی اصلاح کےلئے تجاوےز پےش کرنا تھا۔ اس رپورٹ مےں پہلی بار ےہ انکشاف کےا گےا تھا کہ سول سروس کو دےمک لگ چکی ہے اور اگر اس کی اصلاح کےلئے موثر اقدامات نہ کےے گئے تو پھر پورا معاشرہ اس مرض کی لپےٹ مےں آجائے گا۔ اربابِ اختےار نے اگر اس رپورٹ پر توجہ دی ہوتی اور مناسب کاروائی عمل مےں لائی گئی ہوتی تو اب ہمےں اس بات کا رونا نہ ہوتا کہ کرپشن کی وجہ سے ہماری ترقی کا پہےہ جام ہو چکا ہے اور ہم اس قدر دےوالےہ ہو چکے ہےں کہ پرانے قرض کی ادائےگی ہمےں نےا قرض لے کر کرنا پڑتی ہے۔
اےوب دور مےں افسر شاہی کو کس قدر عروج حاصل تھا اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگاےا جا سکتا ہے کہ مسلم لےگ(کنونشن)کا ضلعی صدر ڈپٹی کمشنر اور سےکرٹری جنرل اےس پی ہوا کرتا تھا۔ دےکھا جائے تو ہمارے ہاں انتظامی مشنری مےں کرپشن کی ابتداءاسی دور سے شروع ہو گئی تھی۔ بعد مےں آنیوالے ادوار مےں اس کو مزےد طاقت ملتی رہی اس طرح کرپشن کو اپنی جڑےں مضبوط کرنے کے مواقع ہمارے حکمرانوں نے خود فراہم کےے تھے۔اس طرح بےوروکرےسی کو جب اپنے اختےارات سے تجاوز کرنے کا موقع دےا گےا تو وہ اپنے حقےقی فرائض ےعنی ملک وقوم کی خدمت سے غافل ہو کر کرپشن اور اقتدار کی رساکشی مےں شراکت دار بن گئی۔ اےسے مےں گنتی کے وہ چند افسر جنہوں نے خود کو اس دلدل سے دور رکھا انھےں اوےس ڈی لگاےا جاتا رہا۔ اس طرح کرپشن اوپر سے لیکر نےچے تک انتظامی ڈھانچے مےں سراےت کرتی چلی گئی۔ مےرٹ کو نظرانداز کرنے کا نتےجہ ہمےشہ کرپشن کی صورت مےں نکلتا ہے ۔ کسی بھی معاشرے کی تباہی مےں کرپشن بنےادی کردار ادا کرتی ہے ےہاں تک کہ پھر انصاف بھی خرےدا جانے لگتا ہے اور آئےن کی حکمرانی کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہےں دےتا۔اس طرح معاشرے مےں بے انصافی کا چلن عام ہو جاتا ہے ےوں عوام کےلئے جائز کام بھی رشوت کے بغےر کرنا ممکن نہےں رہتا۔
گزشتہ برسوں مےں کرپشن کے جتنے بڑے بڑے سکےنڈل منظرِعام پرآئے ہےں ان کے پسِ پردہ افسرشاہی کی کارکردگی نماےاں طورپر نظرآتی ہے۔ اس کی بنےادی وجہ ےہ بنتی ہے کہ بعض افسروں کو رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقررکےاگےا تھا۔ اوربعض اےسے افسروں کو بھی تعےنات کےا گےا جو مطلوبہ قابلےت ہی نہےں رکھتے تھے۔ انہی نااہل افسروں کی کارگزاری کی وجہ سے کرپشن اب لاکھوں ، کروڑوں سے نکل کر اربوں روپے کی حد کراس کر چکی ہے۔ اس صورتِ حال کا سب سے خطرناک پہلو ےہ ہے کہ بدقسمتی سے معاشرے مےں ےہ رجحان بڑی تےزی سے فروغ پاتا جا رہا ہے کہ بدعنوانی پر شرمندہ ہونے اور اس کی اصلاح کرنے کے بجائے اس کا دفاع کےا جانے لگا ہے۔
قارئےن! آپ کو ےاد ہوگا کہ گزشتہ دورِ حکومت مےں بہت سے سےاستدانوں پر جعلی ڈگری کے حوالے سے کےس سامنے آتے رہے ہےں‘ ہمارا مےڈےا بھی ان کےسوں کو کورےج دےتا رہا ہے۔ ےہاں پر ہم آپ کی توجہ اس امر کی طرف دلانا چاہتے ہےں کہ اس وقت بہت سے اعلیٰ عہدوں پر کچھ اےسے افسر بھی موجود ہےں جن کی ڈگرےاں مشکوک قرار دی گئےں ہےں اور اس ضمن مےں عدالتوں مےں مقدمات بھی زےرِ سماعت ہےں ۔ توجہ طلب بات ےہ ہے کہ افسروں کی مشکوک ڈگرےوں کو اس طرےقے سے ہائی لائٹ نہےں کےا گےا جےسے سےاسی لوگوں کو کےا جاتا رہا ہے۔ جعلی ڈگری کے حوالے سے ساری بدنامی سےاستدانوں کے حصے مےں آئی ہے اور افسران پسِ پردہ ہی رہے ہےں۔ بےوروکرےٹ کی دےانتداری اوراہلےت کے معےار کو جانچنے اور پرکھنے کا طرےقہ کار بہت سادہ ہے اگر ان افسروں کے اثاثوں کی چھان بےن کی جائے تو دودھ مےں پانی کی مقدار ےا پانی مےں دودھ کے تناسب کا صاف پتہ لگاےا جا سکتا ہے۔ مگر خود احتسابی کے عمل کو اسی صورت مےں شفاف بناےا جاسکتا ہے کہ جب ہم ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجےح دےنے کے قابل ہوجائےنگے۔ وزےراعظم نے کرپشن کے ضمن مےں جن اقدامات کا اعلان کےا ہے دےکھنا ہوگا کہ وہ اُن پر عمل درآمد کےلئے کےا حکمتِ عملی اپناتے ہےں ۔اس وقت عوام تھانہ کلچر اور پٹوار خانے کی چکی مےں بری طرح پس رہے ہےں اس لےے ےہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ کرپشن کا خاتمہ وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024