پی ڈی ایم کا غیر فطری اتحاد کامیاب نہیں ہو گا اور ان کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹے گی ۔گزشتہ کالموں میں عرض کر چکا ہوں کہ یہ چوہے اور بلی کا اتحاد ہے جو زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتا کیوں کہ یہ صرف مفاداتی سیاست ہے۔ ایک جانب کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور فوج سیاست میں مداخلت کرنا چھوڑ دیںا ور دوسری جانب کہتے ہیں کہ کٹھ پتلی حکومت سے بات نہیں ہو گی انکے لانے والوں سے بات ہو گی ۔اگر عمران خان کی حکومت کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے تو ان کوا س بات کا قلق ہے کہ فوج ان کی حمایت کیوں نہیں کر رہی وگرنہ یہ جمہوریت کے اتنے نام لیوا ہوتے تو جمہوری رویہ اختیار کرتے ان کی اپنی پارٹیوں میں آمریت ہے یہ جمہوریت کا نام کس منہ سے لیتے ہیں۔ (ویسے مولانا فضل الرحمن اپنی ہر تقریر میں آئین اور جمہوریت کا بڑا ذکر کرتے ہیں لیکن انہوں نے اختلاف رائے رکھنے پر اپنی جماعت کے سینئر اراکین کو یک جنبش قلم پارٹی سے ہی نکال دیا ہے۔ یعنی جمہوریت وہ ہی ہے جو نہیں اچھی لگے۔ جو اختلاف کرے اسے پارٹی سے نکال دیں تب انہیں جمہوریت یا جمہوری اقدار کی پاسداری یاد نہیں رہتی ) ۔مولانا یوں تو سیاسی شخصیت ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور ایک جانب فوجی قیادت کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں جو ملک کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے کیوں کہ بھارتی میڈیامولانا کے بیانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے (پاکستان کے سیاست دانوں نے وطیرہ بنا لیا ہے کہ اپنی ہر شکست کا ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ہیں لیکن جب بات کی جاتی ہے کوئی ثبوت تو پھر اپنے ہاتھ کھڑے کر دیتے ہیں)۔ پی ڈی ایم نے شوشا چھوڑ ا کہ استعفے دیں گے لیکن پیپلز پارٹی اور ن لیگ استعفوں کے حق میں نہیں جبکہ مولانا فضل الرحمن جن کی پارلیمنٹ میں ان دونوں جماعتوں کی نسبت کم سیٹیں ہیں وہ سارا کھیل بگاڑنے کے موڈ میں ہیں۔اسی کالم میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان کی سیاست میں استعفے دینے کا رواج نہیں ہے اور پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں آج تک کسی اپوزیشن پارٹی نے استعفے نہیں دیئے اور نہ ہی آئندہ دینگے۔ استعفے صرف ایک سیاسی ٹول کے طور پر اچھالے ضرور جاتے ہیں دیئے نہیں جاتے اور ابھی بھی پی ڈی ایم استعفوں کا کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہی ہے تا کہ اپنے مقاصد حاصل کر سکے ۔خیر سینیٹ الیکشن قریب ہیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پاٹی ان دونوں میں سے کوئی بھی جماعت میدان خالی نہیں چھوڑنا چاہتی ۔پیپلز پارٹی تو کسی صورت نہیں چھوڑنا چاہتی کیوں کہ سندھ میں وہ اکثریت میں ہے اور سندھ کی گیارہ سینیٹ کی سیٹوں میں سے سات پر پیپلز پارٹی کے جیتنے کے قوی امکانات ہیں۔ ایسے میں پیپلز پارٹی کسی صورت نہیں چاہے گی کہ وہ اسمبلیوں سے استعفے دے کر خالی ہاتھ گھر چلی جائے۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن میںمریم نواز اور نوازشریف کا گروپ استعفوں کے حق میں ہے کیوں کہ وہ ذہن بنا چکے ہیں کہ نہ کھیلیں نہ کھیلنے دیں گے جبکہ حمزہ شہباز اور شہباز شریف استعفوں کے خلاف ہیں اور وہ پی ڈی ایم سے یکسر مختلف موقف رکھتے ہیں۔ لاہور کے ناکام جلسے کے بعد تو یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پارٹی پر مریم نواز کی گرفت دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے اور شہباز شریف گروپ کا کنٹرول ابھی بھی پارٹی پر مضبوط ہے اور وہ نیب کی حراست میں یہ کھیل تما شا دیکھ رہے ہیں۔ ن لیگ کے باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ ن لیگ کی اکثریت یعنی ساٹھ سے اسی فیصد اراکین استعفوں کیخلاف ہیں اور وہ برملا نجی محفلوں میں اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایم این اے یا صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کیلئے پانچ سے دس کروڑکا خرچہ ہے۔ اگر پارٹی یہ خرچہ بردشت کر سکتی ہے تو وہ استعفے دینے کیلئے تیار ہیں وگرنہ استعفوں پر زیادہ زور دیا گیا تو فارورڈ بلاک بنتے دیر نہیں لگے گی جس کی قیادت اس وقت شر ق پور کے گدی نشین میاں جلیل شرقپوری اور شکر گڑھ کے مولوی غیا ث الدین کر رہے ہیں۔ ن لیگ کے پنجاب اسمبلی میں متعدد اراکین روزانہ کی بنیادوں پر ان دونوں سے ربطہ کر رہے ہیں اور استعفوں کی صورت میں انہیں تعاون کا یقین بھی دلا رہے ہیں۔ن لیگ کی قیادت اگرپارٹی کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانا چاہتی ہے توانہیں میاں جلیل شرقپوری کے موقف کو ہی اپنانا ہو گا کیونکہ یہ وقت مخاصمت نہیں مفاہمت کا ہے۔ سیاسی مطالبات کیلئے سیاسی رویے ہی اچھے ہوتے ہیں اور حکومت تو نہ چاہتے ہوئے بھی پی ڈی ایم کو مذاکرات کی پیشکش کر چکی ہے کیوں کہ پی ڈی ایم کی بے وقت کی راگنی کی وجہ سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ جلسے جلوسوں کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی پھیل رہی ہے جس کو کم کرنے کیلئے حکومت نے مذاکرات کا کارڈ کھیلا ہے ۔اب پی ڈی ایم میں شامل پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی سمجھدار قیادت کو مولانا کے سائے سے نکل کر سامنے آنا ہو گا کیوں کہ مولانا چاہتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے اپنی پارٹی کے چار سینئر اراکین کو نکالا ہے اسی طرح اس حکومت کیخلاف پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو استعمال کرتے ہوئے حکومت کو بھی نکال باہر کریں اور پاکستان میں انارکی کا ماحول اور سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا کی جائے جو کسی بھی صورت محب وطن حلقوں کیلئے ناقابل قبول ہے۔بلوچستان میں فوج کے جوانوں کی شہادت بتا رہی ہے کہ ملک دشمن قوتیں اس وقت سرگرم ہو چکی ہیں اور پی ڈی ایم کی بے جا تنقید اور فوجی قیادت کو مورد الزام ٹھہرانے کی پالیسی کا غیر ملکی طاقتیں فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں جس پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو سوچنا ہو گا ۔اگر یہ مولانا کے ہاتھ میں یوں ہی کھیلتے رہے تو ان کا حال بھی مولانا کی پارٹی والا ہوتے دیر نہیں لگے گی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024