دْنیا کے ہر خطے میں بسنے والے انسانوں کا دل درد بھی محسوس کرتا ہے اورآنکھیں درد ملنے پر آنسو بھی بہاتی ہیں لیکن جتنا درد اور اذیت ازل سے مسلمانوں کو مل رہا ہے اْسکی پوری دْنیا گواہ ہے دہشت گردوں نے جو مظالم مسلمان قوم پر ڈھائے ہیں اْسکی مثال نہیں ملتی مگر مسلمانو ں کی مدد کو آنیوالے یا اْن کیلئے آواز بلند کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر ہیں اس لیے قربانیوں کی بھینٹ چڑھنے والی مسلمان قوم نے اپنی مدد آپ کا بیڑہ اْٹھا لیا ہے خاص کر پاکستان میں داعش اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کیخلاف قوم کے بیٹے قربانی پر قربانی دیتے چلے جا رہے ہیں، چیف آف آرمی سٹاف کی صحیح حکمت عملی اپنانے سے انتہائی موثر کارروائیوں نے کسی حد تک دہشت گردوں کا قلع قمع کر دیا ہے۔ اب اگر دوسرے ممالک بھی ایسی ہی حکمتِ عملی اپنائیں اور ہر قوم ان بربریت پھیلانے والی تنظیموں کیخلاف بر سرِ پیکار ہو جائے تو دْنیا سے دہشت گردوں کا نام و نشان بھی مٹ سکتا ہے۔ حالیہ ایک دہائی سے جاری دہشت گردی کیخلاف عالمی جنگ ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس جنگ نے اب دْنیا کے بہت سے علاقوں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے کیونکہ دہشت گردی بہت تیزی سے نہ صرف بڑھ رہی ہے بلکہ مزید بھیانک بھی ہوتی جا رہی ہے۔ یہ جنگ افغانستان، مشرقِ وسطیٰ یا افریقہ کے چند ممالک تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ یورپ جیسے ترقی یافتہ علاقے بھی تیزی سے اسکی لپیٹ میں آتے جا رہے ہیں، پیرس میں ہونیوالے کئی واقعات اسکی ایک واضح مثال ہیں۔ اکثر حملوں کی ذمہ داری تیزی سے پھیلتی ہوئی دہشت گرد تنظیم داعش قبول بھی کر لیتی ہے۔ عراقی حکومت کیمطابق برطانیہ اور فرانس سمیت بہت سارے یورپی ممالک کو دہشت گردی کی کارروائی کے بارے میںجب وارننگ دی گئی تھی تو الزام تراشیوں، تجزیوں، دھمکیوں اور گرفتاریوں کا روایتی سلسلہ بھی جاری رہاتھا اورکئی ممالک نے داعش کیخلاف بھرپور کارروائی کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ یورپ سمیت دْنیا بھر میں مذمت کا اظہار بھی کیا گیاتھا۔ امریکہ اور چند طاقتور یورپی ممالک بالخصوص یہ بات سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے کہ آج دْنیا اتنی غیر محفوظ کیوں ہو گئی ہے اور ایک کے بعد دوسری دہشتگرد تنظیم کیوں جنم لے رہی ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ بْنیادی وجوہات کی تہہ تک پہنچنے کی بجائے صرف اپنے اپنے مفادات کے حصول اور تحفظ کی خاطر دْنیا کو آگ اور خون کے کھیل میں مسلسل دھکیلا جا رہا ہے۔ فلسطین کا حل طلب مسئلہ اور اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیزانصاف سے محروم مسلمانوں کو تشدد کی مزاحمت پر مائل کر رہی ہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا اور شام میں جاری رہنے والی جنگ نے نہ صرف خطے بلکہ پوری دْنیا کو غیر محفوظ بنا رکھاہے۔ صدام حسین کے بعد عراق، طالبان کے بعد افغانستان اور معمر قذافی کے بعد لیبیا ۔کیا آج سب پْرامن اور خوشحال ہیں ؟یقینا نہیں۔ کیا امریکہ اور اْسکے اتحادی اپنے مفادات کی خاطر مختلف گروہوں کو مضبوط اور مسلح نہیںکرتے ‘کیا اسرائیل کی مسلسل پشت پناہی امریکہ کے خلاف جذبات کو مزید اْبھار نہیں رہی؟ آخر یہ لوگ کب تک اپنے آپکو اور دْنیا کو بے وقوف بناتے رہیں گے۔یقینا آپ سب کویاد ہوگاکہ روس کے صدر نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا ’’کہ دْنیا کے 40 سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک داعش کی بالواسطہ یا بلا واسطہ مدد کرتے ہیں۔ آج بشار الاسد کے خلاف باغیوں کو نہ صرف بھرپور مدد فراہم کی جا رہی ہے بلکہ اْنہیں منظم اور مضبوط بھی کیا جا رہا ہے اور کل کو جب یہی باغی خود امریکہ اور اْسکے اتحادیوں کیخلاف اْٹھ کھڑے ہونگے تو پھر واویلا شروع کر دیا جائیگا‘‘۔ دنیابھرمیں ہونیوالے حملوں سے امریکہ اور اْسکے اتحادیوں کیلئے ایک واضح پیغام ہے کہ اپنی حکمتِ عملی اور رویوں میں تبدیلی لائی جائے۔ غیر انصافی اور من پسند پر مبنی حکمت عملی کو جاری رکھنے کا نتیجہ اسی طرح نکلے گاورنہ تعصبانہ اوراپنی من پسند حکمت عملی جاری رکھنے کا نتیجہ اسی طرح نکلے گا ۔ ایک داعش کو ختم کرنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ کل کسی اور نام سے نئی تنظیم معرض وجود میں آ جائیگی جیسا کہ آج تک ہوتا آیا ہے۔ ضرورت بْنیادی وجوہات کو جانچنے اور پھر حقیقت پسندانہ اور متفقہ لائحہ عمل اپنانے کی ہے۔ اس کیلئے مشاورت اور خلوصِ نیت کی ضرورت ہے اور بالخصوص مسلمان ممالک کو بھی چاہیے کہ اپنے مفادات کی خاطر دوسروں کا آلہِ کار بننے کی بجائے آزادانہ اور حقیقت پر مبنی حکمتِ عملی اپنائیں آخر کب تک ہم دوسروں کیلئے استعمال ہوتے رہیں گے۔ ویسے بھی ہمارے مذہب جو وضو کیلئے اضافی پانی گرانے سے بھی منع فرماتاہے وہ بے گناہ انسانوں کا خون بہانے کی اجازت کیسے دے سکتاہے دہشت گردی وہ ناسور ہے جو ایک انسانی جسم کے اندرپلتاہے اوروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آتش فشاں کی طرح پھٹ جاتاہے۔اس ناسور کو ختم کرنے کیلئے ہمیں اپنے مذہب، اپنی روایات اور اپنی تاریخ کو پڑھنا چاہیے اور جس طرح بابا بلھے شاہ نے کہا ’’علم بغیر عمل کچھ معنی نہیں رکھتا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38