مشکلات میں پھنسی پیپلز پارٹی کی قیادت نے پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی 91 ویں سالگرہ اس طرح نہیں منائی جس طرح اسے منانے کا فرض تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 30 نومبر 1967ء کو لاہور میں پی پی پی کی بنیاد رکھی اور تین برس کے بعد دسمبر 1970ء میں ہونے والے انتخابات میں یہ پارٹی مغربی پاکستان کی اکثریتی پارٹی بن کر اُبھری مشرقی پاکستان میں بھٹو کو پارٹی کو آرگنائیز کرنے اور انتخابی مہم چلانے کا موقع نہ مل سکا ورنہ وہ وہاں بھی نشستیں جیت سکتا تھا۔
پاکستان ٹوٹنے کے بعد بچ جانے والے پاکستان میں بھٹو نے حکومت بنائی اور صرف چار برس میں پاکستان کو ایک عبوری اور ایک مستقل آئین دیا۔ 1973ء کا وہی آئین پاکستان کی وحدت کا ضامن ہے۔ بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا فیصلہ کیا اور اس پروگرام کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر اے کیو خان نے جو ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر ہالینڈ سے پاکستان آئے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے وابستہ ہوگئے۔ اپنے کئی اخباری کالموں میں ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں بھٹو سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر خان نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے پر بھٹو کو ہمیشہ خراج تحسین پیش کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے چار سال کے دور حکومت میں 1974ء میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس لاہور میں منعقد کرائی اس کانفرنس میں دنیا کے سارے اسلامی ملکوں کے سربراہوں نے شرکت کی تھی۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل‘ متحدہ عرب امارات کے شیخ زید بن سلطان النہیان‘ لیبیا کے کرنل محمد قذافی‘ شام کے صدر حافظ الاسد‘ الجزائر کے صدر بوبدین سمیت تمام اہم سربراہوں نے لاہور کی سربراہ کانفرنس بھی شرکت کی۔ اس کانفرنس نے پاکستانی لیبرکے لیے روزگار کے راستے کھولے۔ آج بھی لاکھوں پاکستانی عرب ملکوں میں برسر روزگار ہیں پاکستانیوں کے لیے روزگار کا راستہ ذوالفقار علی بھٹو نے کھولا تھا۔ یہ بڑی بدقسمتی تھی کہ مارچ 1977ء کے عام انتخابات جو ذوالفقار علی بھٹو نے ایک سال پہلے کرائے تھے متنازعہ ہوگئے۔ بھٹو کے مخالف سیاسی اتحاد پاکستان قومی اتحاد نے ان انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ایک اجتماعی تحریک چلائی جو پانچ جولائی 1977ء کے مارشل لاء پر ختم ہوئی۔جنرل ضیاء الحق جنہوں نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹا تھا ابتداء میں یہ کہتے رہے کہ وہ صرف نوے دن کے لیے آئے ہیں اور انتخابات کرانے کے بعد وہ اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالے کرکے واپس چلے جائیں گے۔ جنرل ضیاء نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر سابق وزیراعظم انتخابات جیت گئے تو وہ سلیوٹ مار کرکے اقتدار ان کے حوالے کر دیں گے۔
بھٹو ضیاء کشمکش پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ پروفیسر غفور احمد جو 1977ء کے بحران کو حل کرنے والی مذاکراتی ٹیم کا حصہ تھے نے اپنی کتاب میں پیپلز پارٹی اورپی این اے مذاکرات پر روشنی ڈالی۔ مولانا کوثر نیازی جو 1977ء میں پی پی پی ‘پی این اے مذاکرات میں پیپلز پارٹی کی ٹیم کا حصہ تھا نے اپنی کتاب اور لائن کٹ گئی میں بھی اس وقت کی سیاسی صورت حال پر روشنی ڈالی ہے۔ 1977ء کا مارشل لاء لگانے والے راولپنڈی کے کورکمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض علی چشتی نے اپنی کتابTHE BETRAYAL OF AN OTHER KIND میں بھی 1977 کے مارشل لاء اور اس کے پس منظر پر لکھا ہے۔ پاکستان کی تاریخ پر نظررکھنے والوں کی رائے ہے کہ پانچ جولائی 1977ء کو مارشل لاء لگا کر اقتدار میں آنے والی فوجی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت سے خائف تھی۔ اس لیے اس نے نوے دن میں انتخابات کرانے کا وعدہ پورا نہ کیا اور احتساب کے نام پر الیکشن ملتوی کر دئیے ۔
ذوالفقار علی بھٹو نے خود لکھا ہے کہ جولائی 1977ء میں کشمیر پوائنٹ مری کے گورنر ہاؤس میں جہاں بھٹو نظر بند تھے جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفیق کار لیفٹیننٹ جنرل فیض علی چشتی نے جب ان سے ملاقات کی تھی تو وہ ماضی کی طرح ان سے بڑے احترام سے پیش آئے تھے۔ جولائی 1977ء میں جب بھٹو فوج کی حفاظتی حراست سے رہا ہو کر لاڑکانہ گئے اور یکم اگست 1977ء کو وہ لاڑکانہ سے کراچی آئے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا تو بھٹو نے لکھا کہ اس وقت کے سندھ کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لیفٹیننٹ جنرل جہاں زیب ارباب مجھ سے ملنے آئے اور انہوں نے مجھے عوام کی طرف سے شاندار استقبال پر مبارک باد دی اور کہا کہ وہ پہلے کی طرح میری صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ مسٹر بھٹو نے اپنی کتاب ’’میرا پاکستان‘‘ میں لکھا کہ میں نے جنرل جہاں زیب ارباب کو یاد دلایا کہ جون 1977ء کے آخر میں میں نے ( ذوالفقار علی بھٹو سے ) جرنیلوں سے راولپنڈی میں بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ غیر ملکی مداخلت پر ہونے والے مصنوعی بحران پر گمراہ نہ ہوں اگر مجھے سیاسی افق سے ہٹایا گیا تو پاکستان کے عوام کراچی سے خیبر تک میری واپسی کا مطالبہ کریں گے۔
اگست کے آخر میں جب مسٹر بھٹو ملتان سے لاہور آئے تو لاہور میں ان کا جو شاندار استقبال ہوا اس نے جنرل ضیاء الحق اور ان کے رفقاء کو سوچنے پر مجبور کیا کہ ملک میں انتخابات کرانے کا رسک لیا جاسکتا ہے یا نہیں کیونکہ انتخابات ہوئے تو ذوالفقار علی بھٹو اکثریت سے جیت جائیں گے۔ سندھ کے بعد پنجاب میں بھی بھٹو کے شاندار استقبال نے ان کی قسمت کا فیصلہ کر دیا۔ فوجی حکومت نے بھٹو کو سیاسی افق سے ہٹانے کے لیے دوسرا راستہ اختیار کیا ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا گیا اور اس مقدمہ میں ان کا جو ٹرائل ہوا اس پر بھی سوالیہ نشان ہیں۔ مسٹر بھٹو کی سیاسی مقبولیت ہی ان کو لے ڈوبی۔ مارشل لا لگنے کے بعد بھٹو کو جب قتل کے مقدمہ میں گرفتار کیا گیا تو انہوں نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو چیلنج کیا تھا کہ وہ اپنی مقبولیت کا اندازہ کرنے کے لیے ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو سے پاکستان کے کسی حلقہ سے الیکشن لڑے۔ بھٹو کے بعد بے نظیر نے باپ کے سیاسی ورثہ کو کچھ عرصہ تک سنبھالے رکھا لیکن بے نظیر کے قتل کے بعد پارٹی کی حالات ناقابل یقین حد تک دگرگوں رہے۔ پارٹی کی قیادت کرپشن کے الزامات میں گھری رہی ۔ پی پی پی کی موجودہ قیادت بھٹو کا یوم پیدائش منانا ہی بھول چکی ہے۔ وہ کرپشن کے الزامات کے بکھیڑوں میں الجھی ہوئی ہے وہ بھٹو کا نام لیتی ہے لیکن عملاً اسے فراموش کر چکی ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38