وفاشعار ملک حاکمین خان بھی چلے گئے۔ 70 کی کشیدہ اور شوریدہ سر دہائی نے پاکستان کو نوجوان سیاسی کارکنوں کی ایسی کھیپ دی جنہوں اگلے کئی عشروں تک ملک کو سیاسی قیادت فراہم کی۔ اس کالم نگار ایسے افراد جو اب ادھیڑ عمر کی منزل سے گزر رہے ہیں ان کیلئے ملک حاکمین جیسے سیاسی کارکن کسی ہیرو سے کم نہیں تھے۔ دائیں اور بائیں کی تقسیم اپنی جگہ’لیکن ان ایثار پیشہ جیالوں اور متوالوں کے ایثار اور وابستگی پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔ ان جیسے بہت سے تاریک راہوں میں مارے گئے۔ سبز اور سرخ انقلاب کے سپنے آنکھوں میں سجائے ایسے نوجوان اپنے تئیں دنیا کو بدل دینے کیلئے نکلے تھے۔ ان کو کیا معلوم زمانہ کبھی نہیں بدلتا۔ جبر کی سیاہ رات کی سحر صرف افسانوں میں طلوع ہوتی ہے انسانوں کا بنایا نظام جبر بہت سفاک ہے۔ تبدیلی ایسی دیوی ہے جس کا درشن اکثر سراب ہی ثابت ہوتا ہے۔ تبدیلی آتی بھی ہے تو عارضی، وقتی، طور پر جیسے نظر کا دھوکہ ہوتا ہے۔ کسی واہمے کی مانند۔سو وہ سب نوجوان جو سرخ پھر یرے کے طلسم کے اسیر تھے اور وہ سب جن کے خیال میں انکی قربانیاں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے کام آئیں گی،ان میں اکثر متوسط طبقے کے محروم پسے ہوئے گھرانوں کے چشم و چراغ تھے جو اپنے گرد و پیش اپنے شہروں، بستیوں میں خلق خدا پر فرعون کی مانند حکومت کرنیوالوں کے مقابل کھڑے ہوئے۔
ان وارفتگان جمہوریت میں ایک ملک حاکمین بھی تھا۔ ضلع کیمبل پور جہاں صدیوں سے زر اورزمین کے مالک حکومت کرتے آئے تھے۔ اس ظلم اور جبر کی دھرتی پر ملک حاکمین خان بھٹو کا ٹکٹ سینے پر سجائے میدان کار زار میں اترا’ دریائے سندھ کے کنارے بسی زرخیزبستیوں کے سمندر میں کود گیا۔ صدیوں سے طاری نواب زادگان کا طلسم پاش پاش کردیا متوسط طبقے کا یہ نوجواں الیکشن جیتا کئی وزارتوں پر فائز رہا۔ اپنی انتظامی صلاحیتوں سے نوجوان حاکمین نے سیاسی لیڈروں کو گمراہ کر دینے میں ماہر بیوروکریسی کو حیران و پریشان کر دیا۔ ملک حاکمین خان کے بارے میں بھی لطیفے گھڑے گئے جس کی بنیاد میدان صحافت کے شہ سوار سید والا تبار جناب عباس اطہر ‘ اپنے شاہ جی کے ذہن رسا کی تخلیق وہ سرخی تھی کہ ‘‘میں پنجاب میں جیلوں کا جال بچھا دوں گا’’۔ اب ملک حاکمین خان اور شاہ جی دونوں ملے ہونگے تو شاہ جی نے ضرور کہا ہو گا ملک صاحب ‘‘جیلوں کے جال’’ پر آپ دنیا میں مجھے معاف کرچکے ہیں لیکن یہ لطیفہ جو سرخی کی کوکھ سے نکلا ملک حاکمین کی ذات سے چمٹ گیا۔ بہت کم لوگ جانتے کہ آج جیلوں میں میسر بہت سی سہولتیں ملک حاکمین کے دور وزارت میں متعارف کرائی گئیں۔ جیلوں کی صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرنیوالا سیاسی کارکن پر اپنے بعد آنے والے سیاسی و غیر سیاسی قیدیوں کے دکھ درد کا ازالہ کر سکتا تھا۔ ملک حاکمین کا تعلق سیاسی کارکنوں کے اس قبیلے سے تھا جن کے دامن پر کرپشن کا کوئی داغ نہ تھا۔ ساری زندگی تنگ دستی میں گزاری دو دفعہ اسمبلی کے ممبر رہے سینیٹ آف پاکستان کی رکنیت کا اعزاز پایا۔ لیکن پائے استقامت میں لغرش نہ آئی۔
ملک صاحب سے اس کالم نگار کا تعلق چوتھائی صدی پر پھیلا ہوا تھا پہلے دور میں نوائے وقت لاہور کا نیوز روم ہمارے لئے جائے ملاقات رہا 80 کی دہائی کے آخری برسوں میں جناب عباس اطہر ، اپنے شاہ جی نیوز روم کے میدان کار زار میں داد شجاعت دے رہے تھے تو ملک صاحب اکثر و بیشتر ملنے تشریف لاتے شاہ جی کے چہرے پر انہیں دیکھتے ہی شرارتی مسکراہٹ کھیلنے لگتی پھر دھیمی سرگوشیوں میں گفتہ و ناگفتہ معرکے شروع ہوجاتے ملک صاحب اپنی گھڑ سواری اور اس سے متعلقہ امور پر مہارت کے ناقابل تحریر قصے سناتے یہ بھول جاتے یہ سب ہمیں زبانی یاد تھے دوسرا دور اسلام آباد آمد پر شروع ہوا جب کیمبل پور سے تعلق رکھنے والے سنئیر اخبار نویس شہید صحافت ملک اسماعیل مرحوم نے مجھے ملک صاحب کے حضور پیش کرکے تعارف کرانے کی کوشش کی ملک صاحب اس کالم نگار کو دیکھتے ہی ‘‘چمک’’ اٹھے باقاعدہ چھلانگ لگا کر کھڑے ہوئے اور والہانہ انداز میں مجھے اپنے جٹ جپھے میں جکڑ لیا ’’اوئے ملکا’ کمال کردتا میرا مجرم گرفتار کرا دتا اے’’ اور جب تک یہ کالم نگار نیوز روم رہا فرنٹ پیج پر ‘‘ دو مرلے ’’ کا پلاٹ ملک صاحب کیلئے مخصوص رہا سرمد ملک انکے بھتیجے اور داماد، ان سے میری یاد اللہ تھی ملک حاکمین ایسے وضع دار اور روایت پسند تھے کہ اس کا علم ہوتے ہی گفتگو میں محتاط ہوگئے بہت بعد پتہ چلا کہ وہ اپنے داماد کے دوست سے بھی روایتی یاوہ گوئی پسند نہیں کرتے تھے ملک حاکمین مرتے دم تک ہر سیاسی تحریک کے سرخیل رہے۔ تنگ دستی وسائل کی کمیابی کے باوجود عوامی حقوق کیلئے نقارے پر چوٹ پڑی تو وہ خم ٹھونک کر صف اول میں آ کھڑے ہوئے، ایم آر ڈی،اے آر ڈی، جی ڈی اے وہ کونسی تحریک جس کے وہ روح و رواں نہ رہے۔ وہ نوابزدہ نصر اللہ خان کے دست راست کے طور پر کل جماعتی کانفرنسوں میں کلیدی کردار ادا کرتے۔ کوئی مشکل کوئی رکاوٹ انکی راہ میں حائل نہ ہو سکی۔ وہ کشادہ دل دیہی سماج کی مہمان نوازی کے خمیر میں گندھے ہوئے متواضع شخص تھے۔ انکی محفلیں ہمیشہ آراستہ رہیں۔
ملک حاکمین خان کافی عرصہ سے علیل تھے۔ ملک حاکمین خان جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری، بلاول بھٹو سب کے ساتھ وفا نبھائی۔ کوئی مشکل وفا کے اس کوہ ہمالیہ کو پیپلز پا رٹی سے جدا نہ کر سکی۔ ہاں بس وہ موت تھی جس کے آگے کسی کا بس نہیں چلتا۔ ملک حاکمین خان دفن بھی پانچ جنوری کو ہوئے جو ان کے قائد عوام کی سالگرہ تھی۔ ملک حاکمین خان سادہ الفاظ میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت اور عروج و زوال کی داستان تھے۔
آخری سانس تک بھٹو اور اسکے نام نہاد نظریہ سے وابستہ و وفادار ملک حاکمین خان بستر علالت پر رہا لیکن کسی پی پی پی رہنما کو توفیق نہ ہوئی کہ وفا کے اس کوہ ہمالیہ کی مزاج پرسی کرتا، اسکے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اسے احساس دلادیتا کہ پارٹی اسے نہیں بھولی۔ دراصل یہ ملک حاکمین خان کا نہیں روایتی پیپلزپارٹی کا انتقال ہے جو اپنے ساتھ ہی وہ روایات، غریب پروری، تعلق اور وفاداری بھی ساتھ ہی لے گئی۔ یہ ملک حاکمین تھا جس نے بھٹو خاندان کی تیسری نسل سے پاس وفا کو نبھا کر دکھایا ۔ذوالفقار علی بھٹو کے ابتدائی اور بااعتماد ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے، اس سیاسی تمغہ کو ہمیشہ اپنے سینے پر سجائے رہے۔ کبھی پارٹی سے شکوہ شکایت نہ کی۔ کبھی عہدوں کیلئے لابی نہ کی۔ یہی وجہ تھی کہ بھٹو کی بے نظیر بیٹی نے بھی انہیں اپنے والد کے بااعتماد دوست اور رفیق کی حیثیت سے ان کی عزت افزائی کی اور انہیں سینیٹر بھی بنایا۔ ملک حاکمین خان کیمبل پور شہر کی شناخت بن گئے۔ 1978ء میں اس کا نام اٹک سے تبدیل ہوگیا بھٹو قافلے میں سجیلا اور منفرد انداز کا حامل ملک حاکمین خان بھی شامل تھا۔ دریائے سندھ کے کنارے آباد شہر کے مکین نے اپنی آخری سانس لینے تک پارٹی کے ساتھ اپنی وابستگی کو کبھی جنس بازار نہ بننے دیا، بڑے بڑے سورما وقت کی آندھیوں میں کسی نہ کسی پناہ گاہ میں جا چھپے لیکن یہ مردوفا اپنے اصولوں، دوستی اور وفاداری کی ہر قیمت دینے کیلئے آمادہ ودستیاب رہا۔ اٹک کے علاقے شین باغ کا یہ باسی ایک جانب پسماندگی، غربت اور جاگیردانہ اثرکی گرفت میں تھا تو دوسری جانب انگریز سلطنت کی پالیسیوں نے اس کو اسکے بنیادی حقوق سے محروم رکھا۔ تقسیم ہند سے قبل اس علاقے سے تعلق رکھنے والے غربت کے ستائے مسلمانوں، سکھوں اور ہندوؤں کی بڑی تعداد فوج میں بھرتی ہوتی رہی۔
ان حالات میں ملک حاکمین خان جیسے سیاسی کارکن کا سیاسی منظرنامے میں اپنی جگہ بنانا ناممکن تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے منہ بولے ‘‘ڈیڈی’’ جنرل ایوب خان کیخلاف تحریک شروع کی تو نواب آف کالا باغ جنرل ایوب خان کے گورنر تھے۔ بڑے بڑے سورما نواب آف کالا باغ کی مونچھوں کے تاؤ دیکھتے ہوئے مخالفت سوچ بھی نہ سکتے تھے، ملک حاکمین خان جیسے کارکن اسی خطے سے اٹھے اور بھٹو کا ساتھ دے کر جاگیرداروں کا خوف ختم کرکے عوام کو ایک نئی دلیری اور طاقت دی۔ ملک حاکمین خان کی کتاب ’خارزار سیاست کے شب وروز‘ میں اس دورآشوب کے کئی واقعات درج ہیں جو صرف اٹک ہی نہیں بلکہ پورے پنجاب کی تصویر کشی کرتے ہیں کہ کیسے پولیس اور پٹواری کے ذریعے مقامی اشرافیہ مخالفین اور غریب عوام کا جینا دوبھر کرتی ہے۔
پھر جنرل ضیاء لحق کے دور میں جب ایک ایک کرکے حقائق کی تپش نے بڑوں بڑوں کا پتہ پانی کردیا تو بھی ملک حاکمین خان کی وفاداری کوغیرت وفا نے میدان میں کھڑا رکھا۔بڑے بڑے ‘‘انکل’’ راہ فرار اختیار کرگئے لیکن شاید مصلحت پسندی اور وفاداری تبدیل کرنے جیسے الفاظ ملک حاکمین خان کی لغت میں موجود ہی نہیں تھے۔ انہوں نے جلاوطنی اختیار کی، نہ ہی گوشہ نشینی پسند کی بلکہ مسلسل قیدوبند اور کوڑوں کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔ عرصہ دس سال پابند سلاسل رہے اور کبھی اپنے مصائب کو جتایا نہ پارٹی کو اپنی وفاداری کی قیمت ادا کرنے کیلئے کبھی استعمال کیا۔ 1967ء سے لیکر آپنی آخری سانس تک ملک حاکمین خان اسی راستے پر کاربند رہے۔ 2008 سے 2012ء تک اٹک سے انکے صاحبزادے شاہان ملک رکن پنجاب اسمبلی رہے۔ملک حاکمین خان کے پاس بیک وقت پانچ وزارتیں رہیں لیکن ان کا دماغ خراب نہ ہوا۔ سب سے پہلے خود کو احتساب کیلئے پیش کیا۔ قائد اعظم کے بعد شاید وہ ان معدودے چند شخصیات میں سے ایک ہیں جن پر کسی قسم کا کوئی الزام نہیں لگا، کرپشن کی نہ ہی قرض معاف کرایا، پرمٹ لئے نہ ہی کوئی غبن کیا۔ یہی وجہ تھی کہ آبائی زمینیں بیچ کر بچوں کی شادیوں کے فرض سے عہدہ برا ہوئے۔
ملک حاکمین خان کی خدمات کی فہرست طویل ہے۔ ضلع کیمبلپور کو پسماندہ قرار دلوا کر حکومت سے یہاں کے رہائشیوں کیلئے خصوصی مراعات دلانا، دیہی علاقوں کو گیس کی فراہمی،روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد کی۔ملک حاکمین خان کی کتاب ‘‘خارزارسیاست کے شب و روز ‘‘ان کی طویل سیاسی جدوجہد،یادداشتوں اور چشم کشا انکشافات پر مشتمل داستان حیات ہے۔جو تمام سیاسی کارکنوں اور اخبار نویسوں کیلئے توشۂ خاص ہے۔
پس تحریر :- ملک حاکمین خان کو یاد کرتے ہوئے دائیں اور بائیں بازو کی تقسیم کا ذکر بھی در آیا تو یاد آیا کہ جب شریف خاندان کا کارپوریٹ کلچر اس نظریاتی تقسیم کو نگل رہا تھا تو بائیں بازو کے دو دیو قامت عالمی شہرت یافتہ دانشور مرحوم عبداللہ ملک اور حقیقی معنوں میں روشن خیال پنجابی دانشور اور شاعر جناب عباس اطہر کو آخری پناہ نوائے وقت میں ملی تھی میرے پیارے شاہ جی جن کی شاعری کو نیوز روم اور اس کی سرخیاں کھا گئیں ۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024