ملت اسلامیہ کے عظیم رہنما اور سابق امیر جماعت اسلامی و ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ قاضی حسین احمد گزشتہ رات گئے ہم سے بچھڑ گئے اور اس دار فانی سے کوچ کرگئے”اناللہ و انا الیہ راجعون“۔قاضی حسین احمد تقریباً بائیس سال جماعت اسلامی کی امارت کی ذمہ داریوں پر فائز رہے۔پاکستان بالخصوص عالم اسلام میں ان کی دینی و ملی خدمات کی بنیاد پر انہیں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔قاضی صاحب دوران تعلیم اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل رہے۔چھ سال سینیٹر رہے،2002میں قومی اسمبلی کے دوحلقوں سے وہ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔1938میں نوشہرہ میں پیدا ہوئے ان کی عمر74برس تھی۔
اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی میں اپنی تحریکی زندگی کے دوران میں نے انہیں ہمیشہ بڑا متحمل اور بردبار پایا۔قاضی صاحب نہ صرف ملک کے ممتاز دینی و سیاسی اور قومی رہنما تھے بلکہ پوری اسلامی دنیا میں انہیں ایک بلند اور ممتاز مقام حاصل تھا۔قاضی صاحب کی گفتگو اور تقریر ہمیشہ جامعیت کے ساتھ ہوتی تھی۔وہ پاکستان کے حالات کے ساتھ عالم اسلام کے بارے میں فکرمند رہتے تھے۔کشمیروفلسطین،بوسنیاو چیچنیا،عرب دنیا کے حالات،عالمی سطح پرمسلمانوں کو درپیش مسائل اور ان کا حل قاضی صاحب کی تقاریرکا مرکزی نقطہ ہوتا تھا۔وہ ایک درد دل رکھنے والے عظیم انسان تھے اور سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے قافلے کے راہی تھے۔مولانامودودیؒ کے بعد میاں طفیل محمدؒ اور ان کے بعد قاضی حسین احمد نے اس عظیم مشن کا علم تھامے رکھا جس کو سید مودودیؒ نے پروان چڑھایا تھا۔ ”جماعت اسلامی ملک کی ممتاز دینی و سیاسی جماعت ہے اور اس کی اسلام اور پاکستان سے وابستگی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔بانی جماعت سیدابوالاعلی مودودیؒ کی قائم کی ہوئی جماعت اسلامی الحمدللہ ایک تناور درخت بن چکی ہے اور پاکستانی معاشرے پر اس کے انمٹ نقوش واضح نظر آتے ہیں۔سیدابولااعلی مودوی ؒ جیسی شخصیات تو صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں لیکن ان کے بعد میاں طفیل محمدؒ جیسے نیک سیرت انسان اور قاضی حسین احمد کی نگاہ بلنداور سخن دلنواز شخصیت کے بعد مرد درویش اور سید مودودیؒکی فکر کو آگے بڑھانے والے سیدمنورحسن اس عظیم تحریک کے سالار کارواں ہیں“۔قاضی حسین احمد کی زندگی جہد مسلسل اور عزم و استقامت کا تابناک مرقع ہے۔وہ ایک زیرک،متحرک اور معاملہ فہم انسان تھے۔اتحاد امت کے لئے ان کی کاوشیں پاکستان اور عالم اسلام کے لئے قابل قدر ہیں۔امیر جماعت اسلامی کی حیثیت سے انہوں نے پاکستان اور بیرون ممالک میں اسلام کا مقدمہ احسن انداز میں پیش کیا۔نائن الیون کے نام نہاد خود ساختہ واقعہ کے بعد جب اسلام اور جہاد کو”دہشتگردی“قراردینے کی بات کی جارہی تھی قاضی حسین احمد نے آگے بڑھ کر مجاہدانہ کردار ادا کیا اور بین الاقوامی فورمز پر اسلام کے کیس کو پیش کیا اور مغربی دنیا کو اس بات کا احساس دلایا کہ اسلام اعتدال پسند دین ہے۔اور امن و اخوت کا درس دیتا ہے۔امریکہ و مغربی ممالک عالم اسلام کے خلاف اپنے دوہرے معیارات کو بدلیں۔قاضی صاحب نے کامیابی کے ساتھ دنیا بھر کو یہ باور کرایا کہ مسلمان”دہشتگرد“اور”بنیادپرست“نہیں ہے بلکہ امریکہ اور مغربی ممالک کو مسلم دنیاکے خلاف ”انتہا پسندی“سے بازآنا چاہئے۔
پاکستان میں ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے قیام میں قاضی حسین احمد کا مرکزی کردار ہے۔وہ ہمیشہ خطروں سے کھیلنے کے لئے تیار اور پرعزم رہتے تھے۔”بوسنیا“کے جہاد کے دوران وہ چلتی گولیوں میں بوسنیا کے مسلمانوں کی مدد کے لئے انتہائی مشکل حالات میں وہاں تشریف لے گئے اور ان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔
قاضی صاحب کو علامہ اقبالؒ کی شخصیت سے بڑی محبت اور عقیدت تھی۔علامہ اقبالؒ کے بعد سید مودودیؒ کی شخصیت ایسی تھی جس نے اسلام کی حقانیت اوربطور ایک مکمل ضابطہ حیات کو ازسر نو زندہ کیا۔قاضی صاحب اکثر اپنی تقاریر میں علامہ اقبالؒ کے اردو اور فارسی میں اشعار پیش کرتے تھے اور”اقبالیت“پر انہیں عبور حاصل تھا۔علامہ اقبالؒ اور سید مودودیؒ کی فکرکی طرح قاضی حسین احمد کی تقاریر میںبھی امت مسلمہ کی بیداری نظر آتی تھی۔
چیچنیامیں روسی مظالم کے خلاف بھی قاضی صاحب نے پورے پاکستان میں بھر پور آواز بلند کی۔جہاد کشمیر کے لئے تو قاضی صاحب نے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔انہوں نے سب سے پہلے5فروری1990کو ہڑتال کی کال دی تھی جوکہ ملک کی تاریخی ”پہیہ جام ہڑتال“ثابت ہوئی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے بعد پورے پاکستان میں اس قدر عظیم اور بھر پور”پہیہ جام ہڑتال“نہیں ہوئی جس نے کشمیر کا ذکر پوری دنیا میں اجاگر کیا ۔قاضی صاحب کے اعلان کے بعد حکومت پاکستان بھی مجبور ہوئی کہ مظلوم کشمیری مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے اس کال پر لبیک کہے۔تحریک آزادی¿ کشمیر کے لئے قاضی حسین احمدکا کردار مثالی اور نمایاں ہے۔الحمد للہ قاضی صاحب اور جماعت اسلامی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پوری دنیا میں اجاگر ہوا ہے اور مظلوم کشمیری مسلمانوں پر بھارت کے انسانیت سوز مظالم عالمی برادری کے سامنے منظر عام پر آئے ہیں۔
قاضی حسین احمد پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام اور دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں کی کامیابی کے لئے زندگی بھر اپنا بھرپور کردار اداکرتے رہے۔وہ ایک لمحہ بھی سکون سے نہیں بیٹھے۔خرابی صحت کے باوجود بطور دانشور،مبلغ اور متحرک دینی رہنما کے طور پر اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں رہے بلکہ حتی المقدور انہیں اداکرتے رہے۔ ان کی ہمیشہ خواہش رہی کہ ملک سے فرقہ واریت کا خاتمہ ہو اور پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ ہو۔ملی یکجہتی کونسل کا قیام اور متحدہ مجلس عمل ان کی اسی سوچ کا نتیجہ تھے۔ابھی حال ہی میں اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام انٹر نیشنل علماءمشائخ کانفرنس کے حوالے سے انتظامی کمیٹیوں کے اجلاس میں اسلام آباد مجھے شریک ہونے کا موقع ملا۔اجلاس کے بعد قاضی صاحب نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ ”ہمیں موت کا کوئی خوف نہیں ہے اور ہم کسی کی دھمکیوں سے نہیں ڈرتے بلکہ اللہ کے راستے میں آخری دم تک اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے“۔اس پریس کانفرنس کے کچھ روز بعد مہمند ایجنسی میں قاضی حسین احمد کے قافلے پر خود کش حملہ ہوا لیکن وہ اللہ کے فضل وکرم سے معجزانہ طور پر بچ گئے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب کسی کا اللہ کی طرف سے وقت مقرر ہے اس نے تب ہی اس دنیا سے جانا ہے۔زندگی و موت اللہ کے ہاتھ میںہے۔قاضی صاحب نے ساری زندگی اس بات کو پیش نظر رکھا اور کبھی کسی ڈر اور خوف کو اپنے قریب نہیں آنے دیا۔بے نظیر بھٹو کے دور میں دھرنے کے دوران بھی آنسو گیس کے شیلوں اور گولیوں میں وہ پارلیمنٹ ہاﺅس پہنچنے میں وہ کامیاب ہوئے۔کبھی کسی مصلحت کو انہوں نے قبول نہیں کیا....©
”میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلمان میں اسی لیے نمازی“
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024