
محمد شکیل بھنڈر
bhinder1973@gmail.com
علامہ اقبال کے آباؤ اجداد کشمیر سے تعلق رکھتے تھے اور آپ کے بزرگوں کا تعلق ہندؤ کشمیری پنڈتوں سے تھا جو سترھویں صدی عیسوی میں مسلمان ہو گئے تھے۔ اس سلسلے میں علامہ اقبال کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی کتاب "زندہ رود" کے شروع میں ہی اپنے سلسلہ اجداد کے بارے میں علامہ اقبال کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
" ایک قلمی رجسٹری شدہ دستاویز میں اقبال نے اپنی قومیت سپرو (کشمیری پنڈت) تحریر کی ہے۔ انہوں نے اپنے والد سے سن رکھا تھا کہ ان کا تعلق کشمیری برہمنوں کے ایک قدیم خاندان سے ہے۔ گوت ان کی سپرو ہے اور ان کے جد اعلیٰ جنہوں نے اسلام قبول کیا، بابا لول حج، یہ لولی حاجی کے لقب سے پکارے جاتے تھے۔"
اس کے بعد علامہ اقبال کے آباؤ اجداد میں سے کس نے اور کب کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ میں سکونت اختیار کی، اس سلسلے میں پورے وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ جیسا کہ فقیر سید وحید الدین نے اقبال کے آباؤ اجداد کے کشمیر سے ہجرت کے بارے میں قیاس آرائی کرتے ہوئے لکھا۔
" قرائن یہ ہیں کہ اٹھارویں صدی کے آخر میں یا انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں یہ ہجرت ہوئی۔"
کشمیر سے ہجرت کرنے والے بزرگ یا تو اقبال کے دادا شیخ جمال دین تھے یا اس کے چار بیٹے جن کے نام شیخ عبدالرحمن ، شیخ محمد رمضان ، شیخ محمد رفیق اور شیخ محمد عبداللہ تھے۔ فرزند اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال نے 19 جون 1962ء کو آزاد کشمیر ریڈیو مظفر آباد کے ایک کے ایک نشریے میں علامہ اقبال کے آباؤ اجداد کی کشمیر سے سیالکوٹ میں ہجرت کے بارے میں فرمایا۔
" علامہ اقبال کے آباؤ اجداد ان کی پیدائش سے کوئی ایک یا دو صدیاں پیشتر پہلگام کے علاقے سے ہجرت کرکے سیالکوٹ میں آباد ہو گئے تھے۔
علامہ محمد اقبال نے اپنے آباؤ اجداد اور اپنی خاندانی گوت کے بارے میں محمد دین فوق کو ایک خط لکھا ۔ جس کو 1934ء میں محمد دین فوق نے "تاریخ اقوام کشمیر" ( جلد اول ) میں شائع کیا ۔ اس کتاب میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ لفظ " سپرو" پر مزید تحقیق کے لیے انھوں نے اقبال سے رجوع کیا ہے۔ جواب میں انھیں علامہ اقبال کا خط ( محررہ 6 جنوری 1934) ملا۔
علامہ نے انھیں لکھا۔
" کشمیری برہمنوں کی جو گوت 'سپرو' ہے اس کے اصل کے متعلق میں نے جو کچھ اپنے والد مرحوم سے سنا تھا، عرض کرتا ہوں جب مسلمانوں کا کشمیر میں دور دورہ ہوا تو برہمن کشمیری مسلمانوں کے علوم و زبان کی طرف قدامت پرستی یا کسی اور وجہ کے باعث توجہ نہ کرتے تھے اس لیے جس گروہ نے سب سے پہلے فارسی زبان وغیرہ کی طرف توجہ کی اور اس میں امتیاز حاصل کرکے حکومت اسلامیہ کا اعتماد حاصل کیا وہ ' سپرو ' کہلایا۔"
علامہ اقبال کا کشمیر سے روحانی اور جذباتی لگاؤ ہونا فطری عمل تھا ۔ آپ نے اپنے اس روحانی اور جذباتی لگاؤ کے سبب کشمیر پر بہت زیادہ لکھا۔ جاوید نامہ، ارمغان حجاز ملازادہ ، لولابی ، کشمیر کا بیاض کے سرنامے سے بہت سی نظمیں لکھیں ۔
" توڑ اس دست جفا کیش کو یا رب
جس نے روح آزادی کشمیر کو پامال کیا "
علامہ اقبال کو شدید احساس تھا کہ کشمیری ایک مظلوم قوم ہے۔ ڈوگرہ ہندوؤں اور انگریزوں نے مل کر کشمیریوں کو غلامی میں جکڑ رکھا ہے۔ چنانچہ ابتدا ہی سے وہ کشمیریوں کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ کشمیری آزاد ہوں، ترقی کریں اور دنیا میں سر بلندی پائیں۔ مگر یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب وہ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اٹھیں، آگے بڑھیں اور غلامی سے نجات کے لیے عملی طور پر جدو جہد کریں۔
" آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
کشمیر کا سفر ؛ علامہ اقبال جب ایک مقدمے کی پیروی کے سلسلے میں 1921ء میں کشمیر گئے تو وہاں کے مہاراجا پرتاب سنگھ کی خواہش تھی کہ علامہ اقبال ان کے ہاں ٹھہریں اور ان کے مہمان بنیں مگر علامہ نے مہاراجا کا مہمان بننا قبول نہ کیا اور وادی کے قریہ قریہ گاؤں گاؤں گھومنا، مظلوم کشمیری مسلمانوں سے ملنا بہتر سمجھا۔ وہ کشمیریوں کی حالت زار پر رنجیدہ ہوتے رہے جنھیں انھوں نے مشاہدے کی آنکھ سے نظم کے قالب میں ڈھالا۔ آپ کشمیر کے فارسی شاعر غنی کاشمیری کے مداح تھے جن کے کلام میں فلسفہ خودی کی قدر مشترک تھی۔ علامہ اقبال کشمیر سے جب واپس لاہور آئے تو یہاں پر ایک کشمیری تنظیم " انجمن کشمیری مسلمانان" میں شامل ہو گئے ۔ ان کے کشمیری مسلمانوں سے لگاؤ اور تڑپ کے سبب انھیں اس تنظیم کا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اس بارے میں فرماتے ہیں ۔
" اقبال نے غالبًا اسی سبب اپنے قیام لاہور کے ابتدائی ایام میں" انجمن کشمیری مسلمانان " سے وابستگی پیدا کی اور کشمیریوں کی فلاح وبہبود کے لیے انجمن کی کارروائیوں میں سر گرم حصہ لیتے رہے ۔" (7)
کشمیریوں کی آزادی کے لیے اقبال کا خواب کشمیر اور کشمیریوں کی آزادی کیلئے اقبال کے خواب کو افغان جہاد، وسط ایشیا کی بدلتی ہوئی صورتحال اور کشمیری مسلمانوں کی قربانیوں اور جہاد کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس کی تعبیر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے جبرو استبداد کی قوتیں ہر جگہ پسپا ہو رہی ہیں جس کی تازہ مثال اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا سے قبل ہی دوبارہ طالبان کا افغانستان میں حکومت قائم کرنا۔ عالمی تاریخ کے سب سے بڑے جابرانہ نظام کا بھی عبرت ناک انجام ہم دیکھ چکے ہیں اس طرح بھارت کا جبر کب تک چلے گا۔ بقول اقبال
گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھر تھراتا ہے جہان چار سو و رنگ بو
پاک ہوتا ہے ظن و تخمیں سے انساں کا ضمیر
کرتا ہے ہر راہ کو روشن چراغ آرزو
ضربت پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش
حاکمیت کا بت سنگیں دل و آئینہ رو
اس وقت ہندوستان سرکار کا ظلم کشمیریوں پر اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ فکر اقبال کی روشنی میں ایسے اقدامات کیے جائیں کہ پوری دنیا کے سامنے ہندوستانی سرکار کا اصل چہرہ بے نقاب ہو جائے اور عالمی دنیا کو مجبور کیا جائے کہ ہندوستان اور ہندؤ سرکار کو مجبور کرے کہ کشمیریوں کو ان کا جمہوری حق دیا جائے تاکہ وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے آزادی کے ساتھ اپنی زندگیاں بسر کرنے کا اعلان کر یں اور دنیا کے نقشے پر پاکستان کا ریاست کشمیر کے الحاق کے بعد نقشہ مکمل ہو سکے۔