
گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
مہنگائی نسلیں تباہ کر دیتی ہے جس کی روٹی پوری نہیں ہوتی وہ معاشرے کے لئے، قوم کے لئے ملک کے لئے کیا کرسکتا ہے۔ معیشت اور مہنگائی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ معیشت ڈوب جائے تو مہنگائی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔ کئی سلطنتیں معیشت ڈوبنے سے تباہ ہو گئی ان میں سے سلطنت عثمانیہ ہے ،سلطنت برطانیہ ہے اور پھر کل کی بات ہے، سوویت یونین معیشت ڈوبنے سے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔
آج مہنگائی کے عفریت نے دنیا کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔اور پھر کورونا کے بعد یوکرین کی جنگ ہوئی ،اس کے بھی عالمی سطح پر بدترین اثرات مرتب ہوئے ۔خصوصی طور پر امریکہ میں اس پر اثرات زیادہ ہی پڑے ہیں ۔یوکرین تو تقریباً تباہ ہو چکا ہے۔ روس بھی اس کی لپیٹ میں ضرور آیا، مغرب کا بڑا حصہ بھی متاثر ہوا، اسی وجہ سے وہاں مہنگائی کچھ زیادہ ہی ہوگئی۔دیگر ممالک میں بھی کچھ مہنگائی کم نہیں ہے ہر ملک میں اپنے اپنے طور پر اس معیشت کے بحران سے نمٹنے کے لیے کوششیں کی گئیں۔ یہاں میں امریکہ اور کینیڈا کا ذکر کروں گا۔ان ممالک میں اور دیگر ممالک میں جن میں ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں وہاں پر کئی اقدام کیے گئے ۔ پہلے وہاں پر کیا ہوتا تھا جیسے ہی کوئی وقوع ہوتا تھا خصوصی طور پر چوری ہوتی تھی تو دو سے تین منٹ یا زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ میں طلب کرنے پر پولیس پہنچ جاتی تھی لیکن اب قوانین کچھ تبدیل کیے گئے ہیں۔ امریکہ میں یہ قانون بنا دیا ہے کہ کوئی شخص کھانے پینے کی چوری کرتا ہوا پکڑا جائے تو اس پر کیس درج نہیں ہوگا ۔ گھر کا مالک،ہوٹل کا مالک، ریسٹورنٹ کا مالک ایسی چوری پر پولیس کو نہیں بلائے گااور ساتھ یہ بھی قانون بنا دیا گیا کہ اگر چوری کی مالیت 900 ڈالر سے کم ہو تو اس کے لیے بھی پولیس کو طلب نہیں کیا جائے گا گویا یہ قابل سزا جرم نہیں ہے۔ ادھر کینیڈا میں بھی قانون بنایا گیا ہے کہ 5 ہزار ڈالر سے کم چوری پر کیس نہیں ہوگا۔
کینیڈا میں اور کئی دیگر مغربی ممالک میں کورونا کے دوران یہ اعلان ہوا تھا کہ اگر کوئی کرایہ دار دکان کا یا مکان کا کرایہ ادا نہیں کر سکتا تو وہ حکومت کو بتائے گا اس کی جگہ پر حکومت کرایہ ادا کرے گی ۔گو کہ ایشیا کے رہنے والے لوگوں کی طرف سے اپنی فطرت کے مطابق کینیڈا اور امریکہ میں تارکین وطن نے اس سہولت سے غیرضروری فائدہ بھی اٹھایا لیکن اس کے باوجود بھی یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔کینیڈا اور امریکہ نے یہ کانسپٹ کہاں سے لیا ہے۔ اس پر بات کرنے سے پہلے میں آپ کو ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں ۔امریکی عدالت میں ایک بچے کو پیش کیا گیا جس نے کچھ کھانے پینے کی اور کچھ دوائیاں چوری کر لی تھیں۔ بچے نے جو کچھ وہاں پر بتایا وہ سن کر جج صاحب رونے لگے ۔بچے نے کہا کہ میری ماں بیمار ہے اور میں بھی اس کے ساتھ ساتھ بھوکا ہوں میری ماں بھی بھوکی ہے۔ میں نے دونوں کے لیے کھانے پینے کی چیزیں چورائی ہیں اور ماں کے لیے دوائی چورائی ہے، وہ شدید بیمار ہے۔ جج نے وہاں پر حکم دیا ، ٹیبل پر پہلے اپنی طرف سے دس ڈالر رکھے۔پھر انہوں نے کہا کہ ہر بندہ جو اس وقت کورٹ روم میں موجود ہے وہ دس ڈالر یہاں پر رکھے اس کے بعد اس کو کمرے سے جانے کی اجازت ہے۔ اس کے ساتھ ہی جج صاحب نے جس شخص نے اس بچے پر مقدمہ درج کرایا تھااس کو ایک ہزار ڈالر کا جرمانہ کر دیا اور جرمانے کے اور جو دیگر پیسے تھے اس بچے کو دے دیئے۔
ہم بات کر رہے تھے کہ مغربی دنیا نے یہ کانسپٹ کہاں سے لیا ۔تھوڑا سا قرون وسطی میں چلے جائیں ،حضرت عمرؓ کے دور میں ایک شخص کو ان کے سامنے پیش کیا گیا۔یہ وہ دور تھا جب اسلام کے مطابق سزائوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ۔خون کے بدلے خون اور چوری کی سزا ہاتھ کاٹ دینا تھا۔ لیکن اس شخص نے بتایا کہ میں بھوکا ہوں، بھوک مٹانے کے لیے میں نے چوری کی ہے۔ تو اس پر حضرت عمرؓ نے اس شخص کو معاف کر دیا۔حضرت عمر فاروقؓ کا موقف تھا کہ اگر ہم اپنی مملکت میں لوگوں کو کھانے پینے تک کی بنیادی چیزیں نہیں دے سکتے تو پھر ہمیں انہیں کھانے پینے کی چیزیں چورانے کے الزام میں سزابھی نہیں دے سکتے۔ تو امریکہ ،کینیڈ اور مغربی ممالک نے یہاں سے کانسپٹ لیا ہے۔عمر لاز اب میں کئی یورپی ممالک میں نافذ ہیں۔ اب ہم ذرا اپنے ملک میں آ جاتے ہیں ۔یہاں پر انسانیت کسی سے کم نہیں ہے، کینیڈا نے اگر پانچ ہزار ڈالر تک چوری کو معاف کر دیا ہے اسے قابل دست اندازی جرم نہیں رہنے دیا۔ تو ہماری حکومت نے نیب میں قانون بنایا ہے کہ جس شخص نے پچاس کروڑ سے کم کی چوری کی ہو،پچاس کروڑ کا فراڈ کیا ہو تو اس کا کیس نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گا۔اس کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو کینیڈ ا اور امریکہ کے چوروں کو جو سہولیات ملی ہیں ان سے پاکستان کا چور اور ڈاکو طبقہ بہت بہتر انداز میں موجودہ نیب کے قانون کو انجوائے کر رہا ہے۔قارئین!ہم تو بچپن سے یہ سنتے آئے ہیں کہ ’’چوری لکھ دی وی تے ککھ دی وی‘‘۔پاکستان ایک ایسا ملک جو تقریباً ڈیفالٹ کر چکا ہے اور اس ڈیفالٹ کے باضابطہ اعلان سے بچنے کے لیے کبھی چائنی ،کبھی سعودی، کبھی قطری، کبھی ترکی ،کبھی یورپین اور امریکن بیساکھیاں تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔اور کشکول توڑ دینے کا جو سیاسی نعرہ ہم لگاتے رہے ہیں وہ دراصل پچیس کروڑ عوام کو بہلانے اور ٹکوسلا دینے کا ایک طریقہ تھا۔قارئین!پنجابی کی ایک مثال ہے کہ ’’مجھاں نوں ڈُبنا مہنہ ہوندااے‘‘یعنی پنجابی کی اس مثال کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے کہ بھینس کو بچپن سے ہی تیرنا آتا ہے مگر جب کوئی بھیس دریا اور جوہڑ میں ڈوب جائے تو یہ اس کے لیے بڑی شرمندگی کی بات ہوتی ہے۔بالکل اس طرح جیسے پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی تقریباً 78فیصد آبادی کھیتی باڑی اور زراعت پر انحصار کرتی ہے اور ہماری یہ پاک سرزمین قدرت کی دی ہوئی نعمتوں اور معدنی وسائل سے مالامال ہے۔ہمارے قریبی ہمسایہ بھارت میں ہم سے آٹھ گنا چھوٹا پنجاب بھارت کے پچیس صوبوں کو اناج سپلائی اور مہیا کرتا ہے۔ ہمارے پاس بھارتی پنجاب سے آٹھ گنا بڑا پنجاب ہے جس میں بہتے دریا ،لہلہاتے کھیت اور خدانخواستہ پھر بارشوں کی بھی کمی نہیں اور دنیا کا ایک مربوط نہری نظام پنجاب میں موجود ہے تو پھر کیا بات ہے کہ ہمارے ملک کے عوام نیوکلیئر بم تو بنا سکتے ہیں مگر گندم اور اناج پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔