
غلام حیدر وائیں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب انتہائی نیک انسان تھے۔ ہجرت کے بعد جب پاکستان آئے تو ان کا کل سرمایہ ایک ٹرنک تھا جس میں چند بوسیدہ کپڑے اور ”نوائے وقت“ اخبار کے تراشے تھے۔ حمید نظامی مرحوم نے اس روزنامے کو پاکستان کی شناخت بنا دیا تھا۔ ان کے بعد مجید نظامی نے اس سلسلے کو مزید آگے بڑھایا۔ وائیں مرحوم نے میاں چنوں میں سکونت اختیار کی اور معاش کے لیے مقامی زمینداروں بودلوں کی مُنشی گیری کی۔ محض اپنی محنت سے وزارت عُلیا کے عہدے تک جا پہنچے۔ بات کرنے میں خاصے محتاط تھے لیکن ایک دن کسی بات پر وہ مقتدر شخصیتوں کو اپنی پاکستانیت جتانے کی جسارت کر بیٹھے! ایک میٹنگ میں کسی صحافی کی رگِ ظرافت پھڑکی اور اس نے وائیں کی موجودگی میں جنرل آصف نواز جنجوعہ آرمی چیف سے تبصرے کے لیے کہا۔ اس پر جنرل صاحب ترنت بوے:
I am also a Pakistani, I am a Thorogh bred Pakistani.
عینی شاہدین کے مطابق وائیں صاحب پر اس قدر گھبراہٹ طاری ہوئی کہ دفتر جا کر چائے کے ساتھ پانی پینا بھی شروع کر دیا۔ پانی پی کر پھر چائے کا کپ منگواتے!....یہ واقعہ ہمیں اس لیے یاد آیا ہے کہ جب بھی میاں شہباز شریف معیشت کی زبوں حالی دیکھ کر سابق وزیر خزانہ مفتاع اسمٰعیل کو ”گھر کاتے“ تو کراچی کا میمن اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتا اور صحافیوں سے باتیں کرتے کرتے ازخود ہنسنا شروع کر دیتا اور پھر ہنستے ہنستے رو پڑتا۔ ان کی اضطراری حرکات پر شریف خاندان کے ایک فرد نے انہیں جوکر کہا جملہ سخت ہونے کے باوصف ان کی ذہنی ساخت کی نشاندہی کرتا تھا۔
ایک بات کی سمجھ نہیں آتی۔ موصوف نہ تو حفیظ شیخ، پاشا اور ترین کی طرح ماہر معاشیات ہیں اور نہ سیاسی طور پر ان کا کوئی قد کاٹھ ہے۔ ازخود یہ کراچی کی یونین کونسل کا الیکشن بھی نہیں جیت سکتے۔ پیشے کے اعتبار سے ان کی سنگزیوں (ٹافی) کی فیکٹری ہے۔ ایسے شخص کو دو مرتبہ اہم ترین وزارت کا چارج دینا محلِ نظر ہے۔ کہنے کو تو کہا جا سکتا ہے اگر دہی بھلے بنانے والا ملک کا صدر بن سکتا ہے تو ٹافی فروش کو وزیر خزانہ بنانے میں کیا قباحت ہے؟ شریف برادران کا شاہانہ مزاج ہے۔ ”گہے برسلام برنجند گہے بردشنام خلعت می دیند۔“ بقول انیس
پتھر کو جو دوں آب تو گوہر سے ملا دوں
کانٹے کو نزاکت میں گل ترسے ملا دوں
موصوف نے بڑا مشکل وقت گزارا ہے۔ میاں شہباز شریف کی ڈانٹ تو یہ کسی طور ہضم کر گئے لیکن جب لندن والے نے ان کی ٹانگیں کھینچنا شروع کیں تو انہیں اندازہ ہوا۔
”سر آمد روزگارِ ایں فقیرے“
ان کی ناکامیوں اور رسوائیوں پر ڈار صاحب نے مضبوط معیشت کی عمارت کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ پہلے بیس روز میں جب روپے کی قدر بیس روپے بڑھی تو ہر طرف داد و تحسین کے ڈونگرے برسنا شروع ہو گئے۔ جدہ کا جادوگر (شریف الدین پیرزادہ) اگر آمروں کو قانونی مشورے دیتا تھا تو لندن میں مقیم لاہوری نے شریفوں کو معاشی داﺅ پیچ سے آگاہ کیا۔ روم کے جولیئس سیرز کی طرح کچھ ایسا تاثر دیا۔ ”میں آیا، میں نے دیکھا، میں چھا گیا“ لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا ”یوں نہ تھا، میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے ، معیشت پٹڑی سے اُترتی گئی۔ روپے نے ڈالر کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔ ڈار نے مصنوعی طریقوں سے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہ ہوئی ۔ آئی ۔ ایم ۔ ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی بڑھکیں کسی کام نہ آئیں۔ عمران خان اور اسکی معاشی ٹیم کے تابڑ توڑ حملوں کا موثر جواب نہ دے پائے! رہی سہی کسر گھر کے بھیدی نے ڈھا دی۔ ڈار کا خیال تھا کہ مفتاح مونچھ ”نیویں“ کر کے گھر بیٹھ جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اسحٰق ڈار نے جس استخوانی ہاتھ میں اپنا مضبوط پنجہ ڈالا تھا اس کی گرفت میکانکی انداز میں سخت ہوتی گئی اور اب تو کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ کشمیری کی ہڈیاں کڑ کڑانے لگی ہیں۔اس قدر سخت اور زہریلا ردِعمل ! مفتاح تنقید کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اپنے کالموں، ٹی و ی ٹاک اور انٹرویوز میں مسلسل گرج برس رہے ہیں۔ یہ عملاً مسلم لیگ (ن) چھوڑ چکے ہیں انہیںاس بات کا ادراک ہے کہ شریفوں کی لغت میں کمزور کے لیے معافی نام کا کوئی لفظ نہیں ہے۔ اس نے ڈار کی رشتہ داری کے متعلق جو نازیبا بات جس انداز میں کی ہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر سیخ پا ہیں!
یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شاہد خاقان عباسی کے ساتھ مل کر ایک نیا اتحاد بنانے کی کوشش کی ہے....کوئٹہ جا کر خاقان کا زیرلب اور مفتاح کا کھل کر تنقید کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ راہیں الگ ہونا شروع ہو گئی ہیں۔ ان کے الگ سے پارٹی یا گروپ بنانے کی افواہیں بھی گردش کرنے لگی ہیں ، کہتے ہیں کہ دو چیزیں لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاتی ہیں۔ باہمی مفاد یا باہمی مخالف....ویسے دیکھا جائے تو دونوں کے مزاج ، کردار اور طبیعت میں بُعد المشرقین ہے۔ مِفتاح متلّون مزاج شخص ہے۔
عباسی کی مزاج میں ٹھہراﺅ اور کردار میں پختگی ہے۔ جس باوقار طریقے سے انہوں نے ایاّمِ اسیری گزارے، مقدمات کا سامنا کیا، اس سے لوگوں کے دلوں میں ان کا احترام بڑھ گیا تھا۔ میاں نواز شریف نے انہیں نہ صرف وزیر اعظم بنایا بلکہ مری کی سیٹ ہارنے کے بعد لاہور سے ضمنی الیکشن میں کامیاب کرایا۔ دوسری مرتبہ قرعہ میاں شہباز شریف کے نام نکلا تو عباسی نے وزارت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ پارٹی کے ساتھ اختلافات بھی کھل کر سامنے آ گئے۔ مفتاح، خاقان اتحاد بھی انہی اختلافات کا شاخسانہ لگتا ہے۔
جیسا کہ کہا گیا ہے مفتاح کی پارٹی سیاست میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ وقت دُور نہیں جب یہ پارٹی اور سیاست سے الگ ہو جائیں گے۔
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
٭....٭....٭