مسئلہ کشمیر کا حل عالمی اداروں کے لیے بڑا چیلنج ہے
بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر کی آزادی کا مسئلہ اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجود قدیم ترین حل طلب مسئلوں میں سے ایک ہے۔ اسی نوعیت کا دوسرا مسئلہ فلسطین کا بھی ہے۔ ان دونوں علاقوں میں آبادی کی غالب اکثریت مسلمان ہے اور جن غاصب قوتوں نے انھیں دبا کر رکھا ہوا ہے وہ غیر مسلم ہیں اس لیے اقوامِ متحدہ سمیت کسی بھی بڑے اور اہم بین الاقوامی یا عالمی ادارے کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ ان مسائل کو حل کرانے کے لیے کوئی ٹھوس کردار ادا کریں۔ یوں یہ مسئلے عالمی اداروں کے لیے بڑے چیلنجز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تقریروں اور بیانات کی حد تک تو ان مسائل کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔ مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ فلسطین میں بسنے والے تقریباً دو کروڑ افراد آزادی سے جینے کا حق مانگ رہے ہیں لیکن بین الاقوامی برادری اور عالمی ادارے ان کو یہ حق دلانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کررہے۔ ان دونوں علاقوں میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں مگر کسی طاقتور ملک یا ادارے کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کی جائے تو اس حوالے سے پاکستان کو بھی اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم عالمی اور بین الاقوامی سطح پر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اس طرح رائے سازی نہیں کرسکے جیسے کہ ہمیں کرنی چاہیے تھی۔ ہر سال 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر تو منایا جاتا ہے لیکن اگر محض اس دن کے منانے سے یہ مسئلہ حل ہونا ہوتا تو کب کا ہوچکا ہوتا۔ 2019ءمیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی انتہا پسند حکومت نے 5 اگست کو بھارتی دستور کی شق 370 اور 35 اے ختم کر کے جموں و کشمیر اور لداخ کو حاصل خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے ان علاقوں کو بھارت میں ضم کرلیا۔ یہ ایک ایسا اہم واقعہ تھا جسے بنیاد بنا کر پاکستان کو بار بار اقوامِ متحدہ، سلامتی کونسل، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو یہ احساس دلانا چاہیے تھا کہ بھارت خطے میں امن و امان کی فضا کو تباہ کرنے کے لیے مذموم ہتھکنڈے اختیار کررہا ہے۔ پاکستان نے اس مسئلے کو اجاگر تو کیا اور بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کر کے یہ پیغام بھی دیا کہ ہم اس اقدام کو قبول نہیں کرتے لیکن عالمی سطح پر ہمارا پیغام ویسے نہیں پہنچا جیسے اسے پہنچنا چاہیے تھا۔
اتوار کو یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر دنیا بھر میں موجود کشمیریوں نے یک زبان ہو کر بھارت کو یہ بتایا کہ وہ مقبوضہ وادی پر اس کے غاصبانہ قبضے کو تسلیم نہیں کرتے۔ پاکستان کے بھی تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہریوں میں کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کے لیے ریلیاں نکالی گئیں۔ ان ریلیوں میں شریک ہو کر پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے یہ اعلان کیا کہ قائداعظم محمد علی جناح کے فرمان کے مطابق کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سمجھتے ہیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے وہ اتنے ہی فکر مند ہیں جتنے کہ کشمیری عوام۔ ان ریلیوں کا مقصد کشمیریوں کو یہ احساس دلانا بھی تھا کہ وہ اپنی آزادی کی جدوجہد میں اکیلے نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے ہر گوشے میں بسنے والے مسلمان ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جس جوش و جذبے سے اس دن کو منایا گیا اس سے حکومت کو اس بات کا احساس ہو جانا چاہیے کہ پاکستانی عوام کسی بھی صورت میں مسئلہ کشمیر کے حل ہوئے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ریلیوں کے علاوہ ملک کے مختلف شہروں میں سیمینارز بھی منعقد ہوئے جن میں مقررین نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ کشمیری بھائیوں کی سیاسی و سفارتی سطح پر امداد جاری رکھی جائے گی۔
یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان بھارت کے وحشیانہ اقدامات کو اجاگر کرتا رہے گا۔ کشمیریوں کو آزادی دلانے کے لیے پاکستان کو معاشی طاقت بنانا ہوگا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک پاکستان معاشی طور پر مضبوط اور مستحکم نہیں ہوتا تب تک بین الاقوامی برادری کو ہماری بات ٹھیک سے سمجھ نہیں آئے گی۔ ہم جن کے دست نگر ہیں ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان سے کیسے کوئی تقاضا کرسکتے ہیں؟ ہماری تمام سیاسی قیادت کو یہ سوچنا ہوگا کہ ان کے تمام تر ذاتی و گروہی مفادات کا تحفظ صرف اور صرف اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب یہ ملک اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہو۔ سیاسی اختلافات کو بنیاد بنا کر ملک کو نقصان ہرگز نہیں پہنچانا چاہیے، لہٰذا سیاسی قیادت کو چاہیے کہ اس نازک صورتحال میں اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اس یک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھی ہو کہ ملک کو ان حالات سے کیسے نکالا جائے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) جیسے شاطر ساہوکار سے ملک کی جان کیسے چھڑائی جائے؟
جہاں تک مسئلہ کشمیر کے حل کی بات ہے تو اس حوالے سے شہباز شریف نے اتوار کو آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے یہ درست کہا کہ اس وقت اس ایوان میں تمام جماعتوں کے اکابرین موجود ہیں اور یہ وہ اتحاد و یگانگت ہے جسے دیکھ کر آج بھارت پریشان ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانیوں نے ہمیشہ اپنے کشمیری بھائیوں کو یاد رکھا اور ان کی اخلاقی امداد جاری رکھی ہے۔ کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد ضرور رنگ لائے گی۔ وزیراعظم کا یہ کہنا بجا ہے کہ جب کشمیر کی بات آتی ہے تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا محاورہ سچ ثابت ہوجاتا ہے۔ بس اسی بات کو سامنے رکھ کر ہمیں اس بات پر توجہ دینی چاہیے کہ ہم کس طرح وہ لاٹھی حاصل کرسکتے ہیں جسے دیکھ کر بھارت کو یہ احساس ہو جائے کہ اگر اس نے کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ بند کرتے ہوئے انھیں اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت نہ دیا تو معاملات اس سطح تک چلے جائیں گے جہاں اسے بھی نقصان اٹھانا پڑے گا۔