پرانے پاکستان میں جو لوگ صاحب استطاعت تھے نئے پاکستان میں غریب ہو گئے ؟ چھ ماہ میں استطاعت سے اچانک محروم کیسے ہو گئے ؟مسلم ریاست پاکستان کی یہ المناک روداد ہے جہاں عام دنوں میں بکرا بیس ہزار روپے میں مل جاتا ہے لیکن حج کی عید آتے ہی وہی بکرا پچاس ہزار روپے کا ہو جاتاہے۔ عام دنوں میں کھانے پینے کی کوئی شے بیس روپے کی ملتی ہے رمضان المبارک میں پچاس روپے کی ہو جاتی ہے۔ایک غریب انسان کا عمرہ آف سیزن میں ستر ہزار روپے میں ہوجاتا ہے ۔ ہائی سیزن یعنی رمضان میں دو لاکھ تک جا پہنچتا ہے۔ اور حج جو مسلمانوں پر فرض بھی ہے وہ ڈھائی لاکھ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ اب یہ کہا جائے کہ بیس ہزار روپے کا بکرا خریدنے کی استطاعت رکھنے والا عید قرباں پر صاحب استطاعت نہیں رہا تو یہ اس انسان کی توہین اور سفید جھوٹ ہے۔ حج تو دور کی بات ایک متوسط سفید پوش انسان سے انڈہ ، گوشت پھل کھانے کی استطاعت بھی چھین لی گئی ہے۔ صاحب استطاعت کو استطاعت سے محروم کرنے والی حکومتیں اور بیوپار اللہ تعالی کے مجرم ہیں۔ مزید ظلم یہ کہ غریب ہاتھ میں ڈھائی تین لاکھ روپے لئے کھڑے ہیں‘ لیکن سرکار کہتی ہے کہ تم اس کثیر رقم سے بھی حج نہیں کر سکتے جائو پانچ لاکھ روپیہ لائو؟ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
وزیرا عظم اور ان کے تمام وزرا ایک بات میں متفق و متحد نظر آتے ہیں کہ حکومت جو بھی کام کرے گی، خواہ اس کے نتائج منفی ہی کیوں نہ نکلیں، تاہم اس کیلئے دلائل دنیا بھر سے ڈھونڈ کر پیش کیے جائیں اور اس دوران تمام مسائل اور ناکامیوں کا ملبہ گزشتہ حکومتوں پر ڈال کر اپنا دامن جھاڑ لیں۔ حکمران طبقے کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کی خرابی کا اندازہ نہیں تھا، یہ تو 6 ماہ کے بعد پتا چلا کہ اس حد تک حالات خراب ہیں، جبکہ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ 22برس کی جدوجہد کے بعد اس مقام تک پہنچے ہیں تو کیا ان گزشتہ 2دہائیوں سے زیادہ عرصے میں وہ اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکے کہ ملکی معیشت اور اقتصادی صورت حال کس ڈگر پر جا رہی ہے اور اس کے اعداد شمار کیا ہیں؟۔ کیا وہ 22برس کے دوران ایسی ٹیم اور حکمت عملی تشکیل نہیں دے سکے جو اقتدار سنبھالتے ہی تجربے کرنے کے بجائے ٹھوس اور موثر اقدامات کرتے کہ معیشت کو سنبھالا مل سکے۔
غیر مسلموں کی ریاستوں میں ان کے مذہبی تہواروں کے مواقع پر خورو نوش کی اشیا اور مصنوعات سستی کر دی جاتی ہیں۔ مسلمان بھی غیر مسلموں کی سیل پر شاپنگ کے لئے سارا سال کرسمس جیسے تہواروں کاانتظار کرتے ہیں اور ایک مسلم ریاست پاکستان ہے جہاں مسلمان ہی مسلمانوں کے لئے چھوٹی عید سے حج تک ہر چیز کا نرخ تین گناہ بڑھا دیتے ہیں۔ کوئی بے نمازی ہو یا بے دین لیکن حج اس پر فرض ہے۔ نماز روزہ زکوات کی اپنی حیثیت ہے اور حج کی اپنی فوقیت ہے۔ حدیثِ مبارکہ ہے:’’ جس کے پاس سفر ِحج کا ضروری سامان ہو اور اس کو سواری میسر ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکے اور پھر وہ حج نہ کرے تو کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر ‘‘۔ نئے پاکستان میں صاحب استطاعت متوسط افراد کوسرکاری حج کرنے سے روک دیا ہے۔سبسڈی نہ دینا عازمین حج کے ساتھ فراڈ ہے۔سفید پوش حق حلال کی محنت سے جمع پونجی اکٹھا کرنے والا سبسڈی پر لعنت بھیجتا ہے۔ وہ صاحب استطاعت تھا تو اس نے حج کی عرضی ڈالی ہے۔ آپ نے اسے غریب اور بھکاری بنا دیا۔سیاسی چور بازاری کا نام سبسڈی ہے۔حج کی حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کی طرح اللہ کی دعوت پر لبیک کہنا اور اس عظیم الشان قربانی کی روح کو زندہ کرنا، ابراہیم واسماعیل جیسی برگزیدہ ہستیوں کی پیروی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تسلیم ورضا، فرمانبرداری اور اطاعت کے ساتھ اپنی گردن جھکا دینا اور اس بندگی کے طریقے کواسی طرح بجالانا جس طرح وہ ہزاروں برس قبل بجالائے اور خدائی نوازشوں اور بخششوں سے مالا مال ہوئے، یہی ملتِ ابراہیمی اور حقیقی اسلام ہے۔ارشاد نبوی کے مطابق:’’ اپنے باپ ابراہیم کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ ‘‘ اور پھر یہ کہتے ہیں: ’’ میں نے موحد بن کر ہر طرف سے منہ موڑ کر اس کی طرف منہ کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں۔‘‘ (سورۂ الانعام) پھر حاجی یہ اقرار کرتا ہے: ’’میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا‘ میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو تمام دنیا کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور یہی حکم مجھے ہوا ہے، اور میں سب سے پہلے فرمانبرداری کا اقرار کرتا ہوں۔‘‘ (سورۂ الانعام ) حج بیت اللہ کی ان تمام کیفیات کو سمیٹ کرواپس آنے والوں کے ساتھ یقینا ارشاد نبوی کے مطابق ایسا ہوتا ہے گویا ابھی جنم لیا۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج فرض ہے، ان لوگوں پر جو اس تک جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔‘‘ (رواہ الترمذی) حج کی فرضیت کا حکم رائج قول کے مطابق 9ھ میں آیا اور اگلے سال 10 ھ میں اپنے وصال سے صرف تین ماہ قبل رسول اللہ ؐنے صحابہ کرامؓ کی بہت بڑی جماعت کے ساتھ حج فرمایا جو ’’حجتہ الوداع‘‘ کے نام سے مشہور ہے .’’ ایک شخص رسول اللہ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’یا رسول اللہؐ کیا چیز حج کو واجب کر دیتی ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا:سامان سفر اور سواری۔ ‘‘ (جامع ترمذی، سنن ابن ماجہ)۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:’’ جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اس کواس کے گھر میں پہنچنے سے پہلے سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے مغفرت کی دعا کے لیے کہو کیوں کہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت کا فیصلہ ہو چکا ہے۔‘‘ (مسنداحمد)
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024