جمعرات‘ یکم جمادی الثانی ‘ 1440 ھ ‘ 7 ؍ فروری 2019ء

شیخ رشید کا 21 گاڑیوں کے ساتھ فیصل آباد کا شاہانہ دورہ۔ ٹرین کا پہیہ جام
کہاں دعوے انصاف کے، مساوات کے، عوامی راج کے۔ کہاں پروٹوکول سے نفرت اور کرپشن سے بیزاری کی باتیں۔ دوسروں پر تنقید کرنا آسان خود کو محفوظ رکھنا اب خاصہ مشکل کام ہو گیا ہے۔ گزشتہ روز محکمہ ریلوے کے شیخ الشیوخ جس طمطراق کے ساتھ 21 گاڑیوں کے جلوس میں فیصل آباد کے دورے پر نکلے اس سے تو بہت سی آنکھیں خیرہ اور زبانیں گنگ ہو گئی تھیں۔ بات صرف یہاں تک ہی رہتی تو شاید ناقدین کو قرار آ جاتا۔ خود موصوف کے شاہی قافلے کے گزرنے کے لیے ریلوے کا پہیہ بھی جام کر دیا گیا۔ مسافر ٹرین کو 40 منٹ چک جھمرہ سٹیشن پر رکنا پڑا۔ گویا شیخ نہ ہوئے بلور صاحب ہو گئے جنہوں نے پوری ایمانداری سے ریل کا پہیہ جام کرنے کا کام سرانجام دیا تھا۔ مگر کیا مجال ہے جو شیخ جی کی تیوری پر بل آیا ہو۔ یا انہوں نے اس شاہانہ پروٹوکول پر ایک لفظ بھی کہا ہو۔ الٹا خوب مزے لیتے رہے۔ اگر وزیر ریلوے دوسروں پر گرجنے برسنے اور جملے کسنے جتنی توجہ اپنے محکمہ پر دیں تو شاید ریلوے کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ ہی جائے۔ مگر ان کے حواس پر نواز شریف ، شہباز شریف، آصف زرداری اور بلاول زرداری سوار ہیں۔ ویسے ہی جیسے بنا ٹکٹ کے کئی مسافر ٹرین میں سوار ہوتے ہیں۔ اپنی ٹرین چھوڑکر دوسری ٹرین میں سوار ہونے کا شغل انہوں نے اب اپنا کاروبار بنا لیا ہے۔ کبھی کبھی تو فواد چودھری کی بجائے شیخ جی پر وزیراطلاعات ہونے کا گماں ہونے لگتا ہے۔
٭٭٭٭٭
ٹریفک وارڈن نے 6 سالہ بچے کا والد کے لائسنس پر 500 کا چالان کر دیا
اب اسے پھرتیاں لکھیں یا حماقت۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک 6 سالہ بچے کو چالان کیا گیا۔ وہ بھی اس کے والد کے لائسنس پر یعنی کرے کوئی بھرے کوئی۔ یہ تو وہی ہوٹل والا معاملہ ہے جس پر لکھا تھا کھانا آپ کھائیں بل آپ کے پوتے دیں گے۔ ایک شخص کھانا کھاکر باہر نکلنے لگا تو ہوٹل والوں نے روک لیا اور کہا بل دیں ۔ اس نے بورڈ پر لکھی عبارت سنائی تو مینجر بولا بالکل درست فرمایا آپ نے یہ بل آپ کا نہیں ہے۔ آپ کے دادا حضور نے جو کھانا یہاں کھایاتھا یہ اس کا بل ہے جو آپ کوادا کرنا ہو گا۔
گلبرگ میں یہ 6 سالہ بچہ اپنی الیکٹرانک بائیک لے کر سڑک پر نکل آیا والد اس کے پیچھے کارمیں تھا۔ وارڈن نے جب ایک بچے کو موٹرسائیکل چلاتے دیکھا تو روک کر اپنی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے کچھ دیکھے سنے بغیر والد کے لائسنس پر 500 روپے چالان کر دیا۔ اب اس میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وردی والے کو کھلی اجازت ہے وہ جہاں چاہے جو مرضی کرے کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ اگر یہی پھرتیاں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور ون ویلنگ کرنے والوں پر بھی دکھائی اور ان کے والدین کے چالان کرتی تو ٹریفک کانظام درست ہو سکتا ہے۔ یورپ میں ہم سے زیادہ قانون پسند لوگ اور ٹریفک والے ہیں مگر وہ بھی بچوں کی ایسی حرکات کا مزہ لیتے ہیں ان کو کھیل ہی کھیل میں ٹریفک رولز سکھاتے ہیں ناکہ ہماری طرح چالان کر کے ڈرانے دھمکانے پہنچ جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ کرانے والی جماعت کے ایک اور رکن کا قبول اسلام
جو لوگ آگ لگانے آئے تھے، آج وہی اس آگ کو ٹھنڈی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی لپیٹ میں سارا یورپ ہی نہیں پوری دنیا آ چکی ہے۔ مگر کہتے ہیں ناں…دیر آید درست آید۔ ہالینڈ کی اسلام دشمن جماعت پی وی وی مسلم دشمنی کے لیے دنیا بھر میں شہرت رکھتی ہے۔ اسی جماعت نے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ کرایا تھا۔ آج وہی جماعت خود اسلام کے پراثر پیغام اور حسن نظر کا شکار ہوتی نظر آ رہی ہے۔ بقول اقبال …؎
’’پاسباں مل گئے کعبہ کوصنم خانے سے‘‘
کل تک جن کی زبانیں شعلے برساتی تھیں وہ آج اپنی غلطی پر نادم ہو کر اسلام کے دامن میں پناہ لیتے نظر آ رہے ہیں۔ کیا اب کوئی مخالف کہہ سکتا ہے کہ اسلام جبر سے پھیلا۔ کیا جارم وین کلیویرن ہالینڈ میں کسی مسلمان کی تلوار سے ڈرکر مسلمان ہوا۔ نہیں انہوں نے اسلام کو پڑھ کر سمجھ کر رد کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر خود ہی مسلمان ہو گیا۔ صرف یہ ایک نہیں ایسے لاکھوں لوگ دنیا میں موجود ہیں جنہوں نے اس جدید معاشرے میں اپنی مرضی سے اسلام قبول کر کے ثابت کر دیا کہ ’’دین میں جبر نہیں‘‘ یہ خبر اسلام دشمنوں کے لیے سوہان روح ہو گی مگر سچ تو یہی ہے کہ جوں جوں کوئی اسلام کو سمجھتا ہے خود بخود اس کی آغوش میں سما جاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اسلام کی حقانیت کا ثبوت اورکیا ہو گا۔
٭٭٭٭٭
فرانس میں پرتشدد مظاہروں پر پابندی
پُرامن مظاہرے کسی بھی معاشرے کے محروم طبقات کی آواز ہوتے ہیں۔ مگر جب یہی مظاہرے توڑ پھوڑ اورجلائو گھیرائو کی پالیسی اختیار کر لیں تو اس سے ایک موثر اور توانا آواز بھی مجروح ہو جاتی ہے۔ شرپسند اس سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہیں بھی جب مظاہرہ ہوتا ہے تو اس میں شامل شرپسند لوٹ مار کے عادی لوگ غریب دکانداروں اور ریڑھی والوں پر دھاوا بولتے ہیں۔ سارا سامان تہس نہس کر کے جو ہاتھ آیا لے کر رفوچکر ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر غصہ نکالا جاتا ہے۔ ان کو جلایا اور توڑا جاتا ہے۔ اب بھلا اب دکانداروں اور موٹر سائیکل والوں کا کیا دوش۔ مظاہرہ حکومت یا کسی جماعت کیخلاف ہوتا ہے۔ نقصان غریبوں کا کیا جاتا ہے۔ اب پیرس میں گزشتہ ماہ سے مظاہرین نے جو ادھم مچایا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ حکومت مخالف مظاہرین نے پورے شہر میں توڑ پھوڑ کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ کہاں روشنیوں اور خوشبوئوں کا شہر پیرس اور کہاں جگہ جگہ آتشزنی کی وارداتیں۔ ایک یورپی بلکہ یورپ کے جدید ترین اور بہترین شہر میں یہ سب کچھ نہایت بدزیب دکھائی دیتا ہے۔ کسی ایشیائی ملک میں ایسا ہوتا تو کب کی پولیس ایسے ناہنجار مظاہرین کوراہ راست پر لا چکی ہوتی۔ مگر فرانس کی مہذب پولیس کے پاس ایسے اختیارات نہیں۔ اب حکومت فرانس نے پرتشدد مظاہروں پر پابندی لگا دی ہے تو امید ہے پولیس اپنے اختیارات لاتے ہوئے ان مظاہرین کی آنسو گیس اور لاٹھی چارج سے سواگت کرے گی جس کے بعد حکومت کو ہی ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنا پڑے گی تاکہ ان زخمیوں کی مرہم پٹی بھی کر سکے۔ اب کہیں انسانی حقوق کی تنظیموں کی آنکھ بھی نہ کھل جائے اور وہ حقوق انسانی کی دہائی دیتے ہوئے مظاہرین کے حق میں نہ نکل پڑے اور یک نہ شد دو شد کا معاملہ بن جائے۔
٭٭٭٭٭