اورتبدیلی کسے کہتے ہیں؟

Feb 07, 2019

امبر جبین

تحریک انصاف کی قیادت روز اول سے طرز حکمرانی میں تبدیلی کا دعویدار رہی ہے ۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کبھی بھی صرف شخصیات کی تبدیلی پر زور نہیں دیا بلکہ ہمیشہ ترجیحات کی تبدیلی کی بات کی اور ثابت کیا کہ وہ پرانے کھلاڑیوں س کے ساتھ بھی نئی ٹیم تشکیل دے سکتے ہیں کیونکہ تبدیلی کیلئے نئے چہروں کی نہیں نئی سمت ضرورت تھی جو وہ اپنی حکومت کے ابتدائی سو دن میں ہی متعین کر چکے ہیں ۔ آج حکومت سیاسی مفادات کی بجائے عوامی ضروریات کو ترجیح دے رہی ہے ۔ اس مقصد کیلئے سوشل سیکٹر میں ریفارمز کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ انفراسٹریکچر کے نام پر بڑی بڑی شاہرات تعمیر کرنے کی بجائے غریب عوام کیلئے پناہ گاہیں اور گھر تعمیر کیے جا رہے ہیں تاکہ گھرانوں میںتقسیم کے ذریعے سروس ڈیلیوری کے عمل کو آسان تر کیا جا سکے ۔یہ ایک پیراڈائم شفٹ ہے جسے واضح طور پر نظر آنا چاہیے تھا لیکن بدقسمتی اکثریت اب تک اس تبدیلی کے دورس نتائج سے بے خبر ہے۔ ایسا کیوںہے ؟ تو اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ اس تبدیلی کیلئے ضروری تھا کہ ماضی میں ہائوسنگ سکیموں کے نام پر دئیے جانے والے دھوکوں اور مناسب ٹائون پلاننگ کیلئے ناجائز تجاوزات کے خاتمے کی جنگ کو کسی منطقی انجام تک پہنچایا جاتا مگر اس دوران اپوزیشن کے منفی پروپیگنڈوں کے شور حکومت اور عوام کے مابین فاصلے کا سبب بنا رہا۔ ذمہ دار کون تھا؟ اس تک پہنچنا اتنا ہی آسان ہے جتنا سامنے والے پر انگلی اُٹھانا۔ عوامی حلقوں میں تبدیلی کے حوالے سے اتنی بے چینی پھیلائی گئی کہ وہ نئی حکومت کو چھ ماہ دینے کو تیار نہیں تھے حالانکہ یہ وہ مختصر ترین عرصہ ہے جو کسی حکومت امور سلطنت سمجھنے کیلئے درکار ہوتا ہے ۔ ایسے میںIMFکے پاس جانے سے حتی امکان بچنے کے بظاہر غیر مقبول مگر درحقیقت عوامی فیصلے نے تحریک انصاف کیلئے آزمائشوں کا انبار کھڑا کر دیا جو وقت کے ساتھ ساتھ اپنی موت آپ مرتی جا رہی ہیں۔ حکمران خواہ کوئی بھی ہو عوام کا غیر حقیقت پسندانہ ردعمل منفی ہی تصور کیا جاتا ہے۔ جلد یا بدیر ہم وطنوں کو یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑیگی کہ آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنا خالصتاً عوامی مفاد میں تھا ورنہ حکومت کہ لیے خسارے کو پورا کرنے کیلئے کوئی راستہ شاید ہی اس سے آسان ہوتا۔ پنجاب جہاں وسائل کی صورتحال جفرافیائی حالات ، قدرتی زرخیزی اور سازگار آب وہوا کے باعث نسبتا بہترہے وہاں خادم اعلیٰ جیسے دھواں دار برق رفتار پرفارمنس کے مالک وزیر اعلیٰ کی جگہ عثمان بزدار جیسے متحمل مزاج اور پھونک پھونک کر قدم رکھنے والے وزیر اعلیٰ کا انتخاب جو اب تک تنقید کا نشانہ ہے دراصل خادم اعلیٰ کی دھواں داری اور برق رفتاری میں روندے جانے والوں کی داد رسی تھا جس کیلئے عثمان بزدار جیسے شخص کا انتخاب ہی عقلمندی تھی جو اپنی شخصی صلاحتوں کے زعم میںدیگرعوامی نمائندوں کا مینڈیٹ ضائع کرنے اور تمام تر اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کی بجائے دوسروں کے مینڈیٹ کا احترام اور اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم کا حوصلہ رکھتا ہو ۔ پنجاب میں تحریک انصاف کا مینڈیٹ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنیوالے عوام کوبنیادی ضروریات کی فراہمی تھا جس کیلئے بہترین حکمت عملی اختیارات کی نچلی سطح تک ترسیل ہی تھی اور جب تک عوامی نمائندوں کو اپنے حلقے کے عوام کے ساتھ رابطے میں نہ رکھا جاتا تب تک یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ یہ تھی وہ تبدیلی جو یہاں بھی عوام کی آنکھوں سے دور رکھنے کی بھر پور کوشش کی گئی ۔ نئی حکومت کیونکہ سابقہ حکمرانوں کی طرح میگا پروجیکٹس سے آغاز لینے کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھا کر لمبے سفر طے کر رہی ہے تاکہ غیر ضروری تھکاوٹ سے بچ کر اپنی توانائیاں درست سمت میں خرچ کرے اس لیے اپنے ابتدائی اقدامات پر ڈھول پیٹنے کی بجائے فیصلے عوام پر چھوڑ رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب عثمان بزدار چولستان میں کسی سادہ لوح محنت کش کو یہ سمجھانے کیلئے کہ وہ اُس کیلئے کیا کر سکتا ہے سابقہ وزیر اعلیٰ کا حوالہ دیتا ہے تو اسکی نیت کو پس پشت ڈال کر اس کا مذاق اُڑایا جاتا ہے کوئی اس تبدیلی پر غور نہیں کرتا جو اسکی مخاطب کے جواب میں پنہاں تھی دراصل اس نے کبھی صوبے کے وزیر اعلیٰ کو پروٹوکول کے بغیر عوامی حلقوں میں مسائل کا اس انداز سے جائزہ لیتے دیکھا ہی نہیں تھا نہ اسے اتنی آسانی سے صوبے کے سب سے بڑے وزیر تک رسائی ہی حاصل ہوئی تھی۔ اسکی حیرت اور حسرت دونوں اس لیے بھی بجا تھیں کیونکہ اس نے کبھی عثمان بزدار کو حکومت کے کسی چھوٹے بڑے اشتہار پر چھپے دیکھا تھا نہ ہی وہ چولستان میں چند دنوں سے پینے کا صاف پانی مہیا کرتے کسی ٹینکر پر مسکراتا نظر آیا تھا۔ وہ تو بس خاموشی سے اپنے اختیارات کا استعمال کر کے علاقے کے غریب عوام تک انکے بنیادی حقوق پہنچانے کیلئے اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہاہے۔
میٹرو بس سروس یا میٹرو اورنج لائن کبھی بھی متنازعہ منصوبے نہیں بنتے اگر انکی لاگت انکے محاصل سے کم ہوتی ۔ میٹرو کو متنازعہ تحریک انصاف کی حکومت نے نہیں بلکہ خود سابقہ حکومت نے بنایا کی انتظامی نقائص نے بنایا۔ مالی اُمور کی موزوں منصوبہ بندی کے فقدان نے خود ن لیگ سے ہی مخالفت کو جنم دیا۔ ضررورت سے زیادہ سبسڈی نے نہ صرف تعلیم اور صحت جیسے اہم شعبہ جات میں نا گزیر اخراجات اور ضروری اصلاحات کے ایجنڈہ کو متاثر کیا بلکہ دیگر اضلاع کے حق پر بھی ڈاکہ ڈالا گیا نئی حکومت کو واجب الادا چیکس کی عدم ادائیگی کے باعث 145کورٹ کیسز کا سامنا تھا۔ قرضوں اور اخراجات کی مد میں خسارہ اسکے علاوہ تھا۔ سابقہ حکومت لوگوں کی پینشن اور پروویڈنٹ فنڈز تک سے رقوم نکلوا چکی تھی۔ ان حالات میں صوبے کے معاشی معاملات کو جاری رکھنا بلاشبہ ایک بڑا چیلنج تھا۔ مختلف شعبہ جات میں سبسڈی کی معقولیت کا فیصلہ بھی ان میں سے ایک ہے جس پر عوامی تعاون خود عوام کے اپنے مفاد میں ہے ۔ اُمید ہے کہ ٹیکس کا پروگریسو سسٹم عوامی شکایات کے ازالے کا سبب بنے گا۔

مزیدخبریں