خُدا کی لاٹھی
خُدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے ، مجرم لاکھ کوشش کرے خُدا کی پکڑسے نہیں بچ سکتا،جتنے مرضی جتن کرے آخر کار اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ سانحہ قصور سے کون واقف نہیں،بڑے تو بڑے ، چھوٹے بچے بھی اس واقعہ کو مدتوں فراموش نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ بھولنے والا واقعہ ہے۔ قصور میں رہنے والی سات سالہ زینب گھرسے قرآن پڑھنے گئی تو اسے راستے میں ہی ورغلا کر اغوا کرلیا گیا۔ چاردن اور نعش کچرے کے ڈھیرمیں سے ملی،قصور جوکہ ایک چھوٹا سا شہر ہے۔اس واقعہ کے بعد احتجاجی مظاہرے ہوئے ہر پاکستانی اس پر انتہائی پریشان اور غصے میں تھا، ہر چینل پر یہی خبر نشر ہو رہی تھی یہ منظر دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا رہادرد دل رکھنے والوں کی ہمت جواب دے گئی تواُنہوں نے اپنا چینل تبدیل کردیا۔‘‘ابتدا میں متعلقہ تھانے نے کسی کی ایک نہ سُنی اور سنی ان سُنی کر دی پھروقت آیا جب میڈیا نے آواز اٹھائی توتھانے والے ان کے آگے پیچھے تھے جوں جوں وقت گزرتا گیا تشویش اور پریشانی کی لہردوڑتی گئی۔ زینب کے قتل کو ابھی دو دن بھی نہیں ہوئے ہوں گے کہ ٹی وی پر آْنے والے ایک مشہور ہوسٹ نے اپنے چینل پر ننھی کم سن بچیوں کو اپنے سٹیج پروگرام میں مشہور ہندوستانی اداکاراؤں کی طرح پاکستانی بچیوں کاگانا دکھایا۔یہ اس وقت کی بات ہے جب کوئی پروگرام یا کوئی چیز اچھی نہیں لگ رہی تھی۔
اس سے قبل بھی مستقبل کے معماروں پر ظلم ہوتے رہے ہیں، بچے تو بچے خواتین اور یہاں تک کہ مردوں کو بھی ظلم کا شکار بنا رہے ہیں روکا انہیںکیسے جائے، کیا قوانین کی سختی ہی اس کا اصل حل ہے؟ اگرسختی کی بات ہے توجوگناہ صرف سختی کی وجہ سے روکے جاتے ہیں وہ کسی معاشرے میں نئے سرے سے نئی شکل میں سامنے آتے ہیں ۔ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا بھی اس مسئلے کا حل نہیں ۔ کیونکہ کل کو زینب کی جگہ کوئی اور زینب بھی ظلم کا شکار ہوسکتی ہے ۔اگرہم بچوں کو اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ اچھی تربیت کریں اور پیار سے سمجھانے کی کوشش کریں تو بچے اپنا دفاع کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں،جبکہ تعلیم حاصل کرنے کا بنیادی مقصد اچھے بُرے میں پہچان کرنا ہے تویقیناً بچوں کی سمجھ میں بات آ سکتی ہے اس سلسلہ میں والدین کا تعاون ازحد ضروری ہے۔ اس کے لئے بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول رکھنے کی بھی ضرورت ہے،اگر کہیں کہ یہ کام بھی حکومت کرے تو یہ غلط ہے یہ والدین کی زمہ داری ہے اور والدین کو اپنی زمہ داری بنھانی چاہئے۔یہ کسی ادارے کا کام نہیں ہاں البتہ سکول میں بچوں کو اپنے دفاع کے لئے ٹریننگ ضروردینی چاہئے کہ وہ اکیلا اپنا دفاع یا حفاظت کیسے کرسکتا ہے؟اان سلسلہ میں ماں باپ کا تعاون بڑی اہمیت کا حامل ہے ماں باپ اور اساتذہ کا پہلا فرض بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا ہے اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو چاہیے کہ ایسے مجرموں کوسخت سے سخت اور بلا تاخیر عبرتناک سزادی جائے۔ماضی کی مثال ہمارے ملک کی ہی ہے کہ 1981ء میں ضیاء الحق کے دورحکومت میں پپوکیس بہت مشہور ہے ۔ مجرموں نے ملک کے مستقبل کی ایک ننھی معصوم جان کو نشانہ بنایا اور پھر قتل کے بعد لڑکے کو ریل کی پٹری کے قریب پھینک دیا اُس وقت کے صدر ضیاء الحق نے مجرم کو سرعام پھانسی کا حکم دیااور اس سرِعام پھانسی کا اثر یہ ہوا کہ کئی برس تک کوئی ایسا بھیانک جرم کرنے کی کسی میں ہمت نہ تھی۔