امید کے نام سے پروگرام کا انعقاد
عنبرین فاطمہ
’’کینسر کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے گزشتہ دنوں الحمرا ء آرٹس کونسل میں’’ امید ‘‘ کے نام سے ایک پلے پیش کیا گیاجس میں شوکت خانم سے صحت یاب ہونے والے بیس سے پچیس بچوں نے حصہ لیا ۔یہ بچے پہلے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے صحت یابی کے بعد یہ زندگی کی طرف لوٹ آئے ہیں اور مریض بچوں کے لئے انسپریشن کا باعث بن رہے ہیں ۔امید پروگرام کی کوریوگرافی زریں سلیمان نے کی ۔پلے کا تھیم یہ ہے کہ ایک بچی جو کہ اتھلیٹ ہے ایک ریس کے دوران گِر جاتی ہے یوں طبیعت خراب ہونے پہ اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ کینسرکی مریضہ ہے اس بچی سمیت اس کے گھر والے نہایت ہی پریشان ہوجاتے ہیں اور ایکدم سے امید کھونے لگتے ہیں لیکن انہیں علاج کروانے کی موٹیویشن دی جاتی ہے وہ اس بچی کا علاج کرواتے ہیں بچی پہلے تو حوصلہ ہی ہار دیتی ہے لیکن بعد میں اپنی بیماری کو قسمت پر چھوڑتے ہوئے بہادی کیساتھ کینسر کا مقابلہ کرتی ہے یوں وہ ایک دن صحت مند ہوجاتی ہے ۔اس پلے میں بتایا گیا ہے کہ اگر کینسر جیسے مرض کی تشخص وقت پر ہوجائے تو یہ قابل علاج ہے ۔اس پلے میں پانچ سال کی بچی سے لیکر پچیس سال کے بچوں نے حصہ لیا ۔پلے کو دیکھنے کیلئے شوکت خانم کی برینڈ ایمبیسیڈر اور پاکستان خواتین کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان ثناء میر اور حالیہ کپتان بسما معروف اور وائس کپتان جویریا خان موجود تھیں ۔پلے کے اختتام میں شوکت خانم کے سی ای او ڈاکٹر فیصل سلطان نے بچوں میں سرٹیفکیٹس تقسیم کئے اسی طرح ثناء میر نے بچوں کے درمیان پاکستان کرکٹ ٹیم کی Capsتقسیم کیں ۔اس پلے میں ایک چیز جو سب سے اہم دکھائی گئی وہ یہ تھی کہ اس میں کینسر کو ایک علامت کے طور پر دکھایا گیا اور یہ دکھایا گیا کہ کس طرح سے یہ بچی کو آکر ڈراتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تمہاری زندگی لے لوں گا اور تمہیں نہیں چھوڑوں گا لیکن بچی اس چیز سے نہیں ڈرتی ۔پلے کو دیکھنے کے لئے بچوں کی ایک بڑی تعداد نے دلچسپی لی ،اختتام پر ثناء میر کا کہنا تھا کینسر جیسے مرض سے لڑ کر صحت یابی کی طرف آنے والے بچوں نے جس اعتماد کیساتھ پلے پیش کیا ہے اس کی جتنی تعریف کم کی جائے کم ہے مجھے آج یہاں آکر نہایت خوشی ہوئی ہے ۔ہم بھی ان بچوں کی خوشیوں میں شامل ہونے کے لئے جو کر سکے ضرور کریں گے ۔ایک اہم پیغام جو اس پلے کے ذریعے دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ امید کبھی نہیں کھونی چاہیے اور بیماری کا مقابلہ ڈٹ کر کرنا چاہیے ،کینسر کے مرض کی بروقت تشخیص سے اس کا علاج ممکن ہے اس لئے کینسر کی تشخیص ہونے پر گھبرائیں نہیں اور نہ ہی ہمت ہاریں بیماری کا علاج کروائیں ۔
واضح رہے کہ گزشتہ 22 برسوںسے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اینڈ ریسرچ کا شمار ملک کے بہترین اور قابل اعتماد ہسپتالوں میں ہوتا آیا ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پچاس سے ذائد شہروں میں ہسپتالوں ،واک اِن کلینک (کینسر اسکریینگ سینٹرز) ڈائیگناسٹک سینٹرز اور لیبارٹری کلیکشن سینٹرز کے نیٹ ورک کی صورت میں موجودگی اور دستیابی ہے ۔شوکت خانم لیب کلیکشن سنٹرز نہ صرف عوام الناس کے لئے اعلی تشخیصی ٹیسٹس کی فراہمی کی یقینی بناتے ہیں بلکہ یہ ٹرسٹ کے لئے ریونیو اکٹھا کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔ان وسائل کی تمام آمدنی ہسپتال میں زیر علاج کے ان مریضوں خرچ کی جاتی ہے جو کینسر کے علاج کی استعداد نہیں رکھتے ۔اب جب کہ پاکستان کا تیسرا شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر ،کراچی میں 2019ء کے آخر تک مریضوں کیلئے اپنے دورازے کھولنے جا رہا ہے ایسے میں ٹرسٹ کی آمدنی میں اضافی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے لہذا شوکت خانم میموریل ٹرسٹ نے کراچی میں25نئے لیبارٹری کلیکشن سنٹرز کا آغاز کر دیا ہے ۔شوکت خانم لیب کلیکشن سینٹرز سے اکٹھے کئے گئے نمونوں کا معائنہ شوکت خانم کے پیتھالوجی ڈیپارٹمنٹ میں کیا جاتا ہے جس میں ملک کی سب سے جدید اور اعلی ترین معیار کی لیبارٹری سہولیات موجود ہیں ۔تمام ٹیسٹ اور معائنے جدید آلات اور مشینوں کے ذریعے کئے جاتے ہیں ۔یہاں جدید طرز کا پیشنٹ ڈیٹا مینجمنٹ سسٹم بھی موجود ہے جس کے ذریعے ڈاکٹر اور مریض اپنی ٹیسٹ رپورٹس آن لائن بھی دکھ سکتے ہیں ۔کسی بھی مریض کے علاج اور مینجمنٹ کے لئے درست لیب کا انتخاب بہت ضروری ہے کیونکہ درست تشخیص کے ذریعے ہی علاج کے بارے میں موزوں ترین فیصلے بروقت کئے جاسکتے ہیں ۔