پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعروں کی گونج‘ بھارتی جارحیت کا تسلسل اور ہمارے قائدین کی بے نیازی
پیر 5 فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم یکجہتی ٔکشمیر منایا گیا۔ اس سلسلہ میں مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے صبح دس بجے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی اور کوہالہ اور منگلا پل سمیت پاکستان اور آزاد کشمیر کو ملانے والے دوسرے راستوں پر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی۔ یہ دن منانے کا مقصد دنیا کو ایک واضح پیغام دینا ہے کہ پاکستانیوں اور کشمیریوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں اور ایک دن کشمیر بنے گا پاکستان۔ اس حوالے سے برمنگھم میں بھی انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر کشمیریوں کی بھرپور حمایت کا اظہار کیا گیا۔ برسلز میں وزیراعظم کی رہائش گاہ اور امریکی سفارتخانہ کے سامنے مرکزی شاہراہ پر سخت سردی کے باوجود مظاہرین نے بھارتی ظلم و تشدد کیخلاف احتجاج کیا۔ اسی طرح پرتگال میں بھی کشمیریوں سے بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا گیا جبکہ آزاد کشمیر اور ملک بھر میں ریلیاں‘ عوامی اجتماعات‘ تقریبات اور سیمینارز کا انعقاد کیا گیا جن کے ذریعے مقبوضہ وادی میں بھارتی فوجوں کے وحشیانہ مظالم‘ خواتین کی بے حرمتی اور نوجوانوں کو لاپتہ کرکے مارنے جیسے افسوسناک واقعات کو عالمی برادری کے سامنے اجاگر کیا گیا۔ برطانیہ کے مختلف شہروں اور جرمنی کے دارالحکومت برلن میں بھی کشمیری اور پاکستانی باشندوں کی جانب سے جلسوں اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مظفرآباد میں آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پالیسی ہمارے سینوں میں محفوظ ہے‘ کشمیری تنہاء نہیں‘ اہل پاکستان اور کشمیریوں کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں۔ ہم ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔ بھارت نے ہر حربہ آزمالیا مگر وہ کشمیریوں کے جذبۂ آزادی کو ماند نہیں کر سکا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے معاملہ پر ہم سب کو اکٹھے رہنا چاہیے۔ اگر ہم بٹے رہے تو نقصان ہوگا۔
دوسری جانب صدر مملکت ممنون حسین نے ایوان صدر میں یوم یکجہتی ٔ کشمیر کے حوالے سے منعقدہ سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرزمین کشمیر سے ابھرنے والی خالصتاً مقامی تحریک کو بدنام کرنے کیلئے بھارت ہمیشہ اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ انکے بقول اب بھارت کی جانب سے دنیا کے مختلف حصوں میں سرگرم بدنام عسکریت پسندوں کو مقبوضہ کشمیر میں متحرک کرنے کی مذموم کوششیں جاری ہیں تاکہ حقیقی تحریک آزادی کو سبوتاژ کیا جاسکے۔ یہ منصوبہ نہایت خطرناک ہے جس کے نتائج تباہ کن ہونگے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ کشمیری عوام کو حق خودارادیت دلانے کیلئے اپنا اثرورسوخ استعمال کرے تاکہ خطے میں پائیدار امن کا قیام یقینی بنایا جاسکے۔ اس سیمینار میں صدر آزاد کشمیر سردار محمد مسعود خان‘ چیئرمین کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمان‘ وزیر دفاع خرم دستگیر‘ کنوینر آل پارٹیز حریت کانفرنس غلام محمد صفی اور چیئرپرسن امن و ثقافت کمیٹی حریت کانفرنس مشال ملک نے بھی اپنے اپنے خطاب میں کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تقسیم ہند کے ایجنڈے اور جغرافیائی حقائق کی بنیاد پر ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ ہی الحاق ہونا ہے جبکہ بھارت نے پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی اپنی شروع دن کی بدنیتی کے تحت اب تک کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں ہونے دیا اور اسکے ایک بڑے حصے پر قیام پاکستان کے فوراً بعد اپنا تسلط جما کر اور بھارتی فوجوں اور دوسری سکیورٹی فورسز کے ذریعے کشمیریوں کا عرصۂ حیات تنگ کرکے انکی حق خودارادیت کیلئے دنیا کے کونے کونے تک پہنچنے والی آواز دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مگر بھارتی تسلط کی سات دہائیاں گزرنے کے باوجود کشمیری عوام کو انکے مؤقف سے ہٹایا جا سکا ہے نہ بھارتی مؤقف پر قائل کیا جاسکا ہے۔ کشمیری عوام نے چونکہ قیام پاکستان سے بہت عرصہ پہلے ہی اپنے لیڈر چودھری غلام عباس کی قیادت میں اپنے ایک نمائندہ اجلاس میں اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کرنے کا اعلان کردیا تھا اس لئے بھارت کی ہندو لیڈرشپ کو اسی وقت کھٹک گیا تھا کہ کشمیریوں کو حق خودارادی دے کر کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو نہیں روکا جاسکے گا چنانچہ بھارت نے کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی اختیار کرلی تاکہ اس پر اپنے تسلط کا آئینی اور قانونی جواز نکالا جاسکے۔ بھارت کی ہندو لیڈرشپ کو یہی گمان تھا کہ کم وسائل کے باعث پاکستان کا آزاد وجود زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکے گا اور وہ بے بس ہو کر بالآخر بھارت کی جھولی میں واپس آگرے گا۔ اسی تصور کے تحت بھارت نے پاکستان کی تشکیل بادل نخواستہ قبول کرلی مگر اکثریتی آبادی کی بنیاد پر خودمختار ریاستوں جوناگڑھ‘ مناوادر اور حیدرآباد دکن کا بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کے باوجود مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل خودمختار ریاست کشمیر کا اسکے وسائل سے پاکستان کو مستفید نہ ہونے دینے کی سازش کے تحت پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا۔ یہ توقائداعظم کی فہم و بصیرت تھی کہ انہوں نے ہندو لیڈرشپ کی سازشیں بھانپ کر جرأت مندی اور خودداری پر مبنی ایسی اقتصادی اور انتظامی پالیسی وضع کرلی کہ پاکستان کم وسائل کے باوجود اپنے پائوں پر کھڑا ہوگیا اور متعصب ہندو کے سینے پر مونگ دلنے لگا جبکہ بھارت نے نہرو کی قیادت میں پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشوں کے دفتر کھول کر کشمیر کو متنازعہ بنایا اور دادرسی کیلئے اقوام متحدہ جا پہنچا۔ یواین سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی نے پاکستان اور کشمیریوں کے مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی قراردادوں کے ذریعے بھارت کو کشمیریوں کیلئے رائے شماری کے اہتمام کی ہدایت کی مگر بدنیت بھارت اقوام عالم کے اس نمائندہ ادارے کی قراردادوں سے ہی منحرف ہوگیا اور کشمیر پر اپنی فوجوں کے ذریعے جاری تسلط کو آئینی کور دے کر اس مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا۔ وہ دن اور آج کا دن‘ کشمیریوں نے نہ صرف بھارتی مؤقف اور تسلط کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اپنے لاکھوں پیاروں کی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اورہزاروں عفت مآب کشمیری خواتین کی عصمتوں کی قربانیاں دے کر گزشتہ 68 سال سے اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے جبکہ انکی جدوجہد کے نتیجہ میں ہی اقوام عالم کو آج مسئلہ کشمیر اور بھارتی ظلم و جبر کے ہر ہتھکنڈے سے مکمل آگاہی ہوچکی ہے چنانچہ جلد یا بدیر بھارتی تسلط سے آزادی کشمیری عوام کا مقدر بن چکا ہے جنہوں نے پاکستان کیساتھ الحاق کرکے تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کرنی ہے۔
اسی تناظر میں اہل پاکستان کے دل کشمیری عوام کے دلوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں تاہم پاکستان نے کشمیر پر باضابطہ طور پر یہ اصولی مؤقف اختیار کیا ہے کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کا تسلیم کردہ حق خودارادیت دیکر انہیں اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے دیا جائے۔ اس مؤقف کی بنیاد پر ہی پاکستان نے جموں و کشمیر کی آزاد حیثیت برقرار رکھی ہوئی ہے جبکہ بھارت نے اپنی شروع دن کی بدنیتی کے تحت مقبوضہ وادی کو اپنی ریاست کا درجہ دے رکھا ہے۔ ہماری کامیابی اسی میں ہے کہ کشمیر پر اپنے اصولی مؤقف میں کسی قسم کی لچک یا کمزوری پیدا نہ ہونے دی جائے اور کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کی دامے‘ درمے‘ سخنے معاونت برقرار رکھی جائے اور علاقائی و عالمی فورموں پر کشمیر کی آزادی کیلئے پرزور آواز اٹھائی جاتی رہے۔ بدقسمتی سے جرنیلی ادوارِ اقتدار میں کشمیر پر پاکستان کے اصولی مؤقف پر مفاہمت کے راستے نکالنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور مشرف کا چار نکاتی کشمیر فارمولا اسکی بدترین مثال ہے۔
بھارت کی چونکہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی شروع دن کی بدنیتی ہے اور اسی بنیاد پر وہ کشمیر پر تسلط جما کر پاکستان پر تین جنگیں بھی مسلط کرچکا ہے اور ہم پر آبی دہشت گردی کا بھی مرتکب ہورہا ہے جبکہ اسی بدنیتی کے تحت وہ اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی اور امریکہ‘ فرانس‘ جرمنی کے ساتھ کئے گئے ایٹمی‘ دفاعی تعاون کے معاہدوں کے بل بوتے پر وہ باقیماندہ پاکستان پر شب خون مارنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے جس کے عزائم کو ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی نے ہی روکا ہوا ہے چنانچہ اس تناظر میں یہ ہرگز توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ کشمیر پر کسی مفاہمت کی بنیاد پر بھارت پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی سازشوں سے باز آجائیگا۔ یہ سازشیں تو اسکی سرشت میں شامل ہیں اس لئے ہمیں بہرصورت کشمیر پر اپنے دیرینہ اصولی مؤقف کو بھی صدق دل سے تھامے رکھنا ہے اور اپنی سلامتی کیخلاف جاری بھارتی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے اپنے گھوڑے بھی ہمہ وقت تیار رکھنے ہیں بصورت دیگر کشمیری عوام کا اعتماد بھی ہم پر کمزور ہوگا اور ہم شاطر بھارت کی سازشوں کا شکار ہونے سے بھی نہیں بچ سکیں گے۔ یہ صورتحال ہماری تمام سول و عسکری قیادتوں اور تمام قومی سیاسی و دینی قائدین کے کشمیر ایشو پر مکمل یکجہت ہونے کی بھی متقاضی ہے کیونکہ بھارت آج امریکہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کی بنیاد پر ہماری سلامتی کیخلاف اعلانیہ سازشیں کرتا نظر آتا ہے۔ بے شک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر اپنے ٹویٹر پیغام میں یہ دوٹوک جواب دیا ہے کہ قابض بھارتی فوج کے مظالم بہادر کشمیریوں کی تحریک آزادی کو نہیں دبا سکتے تاہم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کے مظالم اور کنٹرول لائن پر بھارتی شرانگیزیوں کا تسلسل برقرار ہے جس کی فوجوں نے یوم یکجہتی کشمیر پر بھی ایل او سی پر یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھا جس میں پاکستان کے پانچ شہری زخمی ہوئے۔ وزارت داخلہ کی حالیہ رپورٹ میں بھارتی بدنیتی کی نشاندہی کرتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے کہ بھارتی ’’را‘‘ اور افغان ’’این ڈی ایس‘‘ اپنی مشترکہ حکمت عملی کے تحت گلگت بلتستان میں سی پیک کو نشانہ بنا سکتی ہیں اس لئے ہمیں بھارتی سازشوں سے ہمہ وقت چوکنا رہنا اور قومی یکجہتی کی ایسی مثال پیش کرنی ہے کہ مکار بھارت کو ہماری قومی‘ سیاسی اور عسکری قیادتوں میں کسی کمزوری کی بھنک تک نہ پڑے۔ یوم یکجہتی ٔ کشمیر اس حوالے سے اپنے دشمن بھارت کو مسکت جواب دینے کا بہترین موقع تھا مگر یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ ہماری قومی سیاسی قائدین اس دن بھی ایک دوسرے پر بلیم گیم کی سیاست کرتے نظر آئے بالخصوص سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے مظفرآباد میں وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کے ساتھ کھڑے ہو کر کشمیر پر پاکستان کے اصولی مؤقف پر کم اور نیب ریفرنسوں کے حوالے سے اپنے ساتھ مبینہ سیاسی انتقامی کارروائیوں پر زیادہ بات کی اور کشمیری عوام سے بھی یہی استفسار کیا کہ ’’مجھے کیوں نکالا گیا ہے‘‘ اگر وہ مظفرآباد کے پبلک جلسے میں کشمیر پر پاکستان کے اصولی مؤقف اور یہ مؤقف تسلیم کرانے کیلئے اپنی حکومت کی اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی و علاقائی فورموں پر کی جانیوالی کاوشوں کو اجاگر کرتے تو کشمیریوں کے دل انکے ساتھ فی الواقع دھڑکتے نظر آتے جبکہ وہ خود کو کشمیری لیڈر بھی کہتے ہیں۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ یوم یکجہتی کشمیر پر مقبوضہ کشمیر اسمبلی تو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ایک قرارداد کے ذریعے پاکستان بھارت مذاکرات بحال کرنے کا تقاضا کررہی ہے مگر ہماری اسمبلیوں میں جارحانہ مخالفانہ سیاست کو برقرار رکھ کر بھارت کو پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کا پیغام دیا جاتا رہا۔ ہماری قومی سیاسی و عسکری قیادتوں کو ملک کو درپیش موجودہ چیلنجوں کا بہرصورت ادراک کرنا ہوگا اور قومی سلامتی کے تقاضوں کو مقدم رکھ کر ملک کے دفاع کیلئے قوم کو سیسہ پلائی دیوار بنانا ہوگا تاکہ کشمیریوں کی حق خودارادیت کی منزل قریب لائی جاسکے اور دشمن کے عزائم خاک میں ملائے جاسکیں۔