کچھ ادبی لوگوں کے اقوال
مونٹگمری کہتے ہیں ’’آنے والا کل ہمیشہ تروتازہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں ابھی تک کوئی غلطی موجود نہیں ہوتی‘‘ بے شک ماضی انسان کا آئینہ ہوتا ہے جسے دیکھ کر وہ اپنے حال کو بہتر بنا سکتا ہے۔ جتنے غور سے کوئی اس آئینے میں دیکھے گا اتنا ہی اس کا حال بہتر ہوتا جائے گا۔ اور جو اس آئینے کو سرسری نظر سے دیکھ کر اپنے شب و روز میں مگن رہے گا اس کا حال اس کے ماضی سے بھی بدتر ہو جائے گا۔ مستقبل چونکہ ابھی آنا ہوتا ہے جسے ابھی کسی نے دیکھا نہیں ہوتا اس لئے اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہمیشہ ہی بہت تروتازہ ہوتا ہے۔ تاہم ہر کوئی اپنے مستقبل کو سنوارنے یا بگاڑنے کا اہتمام اپنے زمانہ حال ہی میں کرتا ہے۔ سیاستدان اگر حکومت میں ہوں تو اقتدار کو اگلی ٹرم تک بڑھانے کیلئے وہ ڈٹ کر عوام کی خدمت کرتے ہیں۔ اگر وہ اس کے الٹ کریں گے تو ان کی موجودہ ٹرم تو کسی نہ کسی طرح گزر جائے گی۔ تاہم اگلی ٹرم کا خیال دل سے نکالنا پڑے گا۔ طلباء اپنی ابتدائی کلاسز میں ہی اپنے بہترین مستقبل کابیج بو لیتے ہیں۔
شارلٹ برونٹے نے کہا تھا ’’میں پروقار ہونے کی بجائے ہمیشہ خوش رہنا پسند کروں گی‘‘ ہمارے ہاں لوگ پروقار بن کر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اچھا عہدہ عزت و احترام کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں وہی لوگ باعزت مانے جاتے ہیں جن کے پاس کوئی اعلیٰ عہدہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم بھی عہدے کے حصول کیلئے حاصل کی جاتی ہے۔ دولت بھی اعلیٰ عہدے کی مرہون منت سمجھی جاتی ہے۔ جو لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان پر کتنی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جتنی ذمہ داریاں زیادہ ہوں گی جوابدہی بھی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ جو لوگ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں ان کا حال راؤ انوار جیسا ہوتا ہے اور جو اپنی ذمہ داریوں کو خود نبھانے سے کتراتے ہیں اور انہیں جوتے کی نوک پررکھتے ہیں ان کا حال سابق وزرائے اعظم جیسا ہوتا ہے جنہیں اپنی مدت کے اختتام پر یا تو بیرون ملک روانہ ہونا پڑتا ہے یا پھر گوشہ نشینی اختیار کرنا پڑتی ہے۔
شیکسپیئر نے کہا تھا کہ کمزوری کا نام عورت ہے۔ اس بات کو بطور کہاوت نہیں لیا جا سکتا کیونکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ عورتوں نے بہت سے مواقع پر مردوں سے بڑھ کر کام کیا ہے۔ آج بھی دیکھا جائے تو دیہاتی عورتیں اپنے مردوں کی نسبت زیادہ بھاری کام کرتی ہیں۔ شہری عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ تمام شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ سیاست کی طرف نظر دوڑائیں تو برطانوی وزیراعظم ٹریسا مے اور جرمن چانسلر اینجلا مرکل کا نام نمایاں نظر آئے گا۔ پاکستان میں بینظیر بھٹو اور بنگلہ دیش میں نظربند اور زیر عتاب رہنما خالدہ ضیاء نظر آئیں گی۔ شیخ حسینہ واجد اپنی انتہا پسندانہ سیاست کی وجہ سے منفی نام بن گیا ہے۔
بیکن نے کہا تھا ’’جو شادی کر لیتے ہیں ان کی قسمت یرغمال ہو جاتی ہے‘‘ وہ کوئی بھی اہم کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ انہیں ہر وقت اپنے بیوی بچوں کا ہی خیال رہتا ہے۔ دنیا کے تمام اہم کام کنوارے اور بے اولاد لوگوں نے ہی کئے ہیں۔ بیکن بے شک ایک بڑے مصنف تھے لیکن ہم ان سے اختلاف کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سی ایسی مثالیں ہیں جو ثابت کرتی ہیں کہ شادی شدہ لوگوں نے بہت بڑے بڑے کام کئے ہیں۔ ہمارے قائداعظم شادی شدہ تھے۔ علامہ اقبال شادی شدہ تھے۔ رانا لیاقت علی خاں شادی شدہ تھے۔ بیشک شادی شدہ لوگ بھی اہم کام کر سکتے ہیں۔ شادی شدہ مرد کا سب سے بڑا کام یہی ہوتاہے کہ اس نے ایک عدد عورت کو سنبھالا ہوا ہے۔
جین آئر نے کہا تھا ’’مجھے یقین ہے کہ دنیا میں انسان والدین کے ہاں Monsters (خونی درندے) پیدا ہو جاتے ہیں‘‘ ان کی بات بالکل درست محسوس ہوتی ہے کیونکہ دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو درندوں سے بھی بدتر ہیں۔ لیکن ان کے والدین انسان ہی ہیں۔ ہمارے ہمسائے میں موجود درندہ صفت مودی ہو‘ اسرائیل کے سابقہ اور موجودہ آدم خور وزرائے اعظم ہوں ‘ میانمار کی بے حس آن سان سوچی ہو یا پھر ان کے اعلانیہ و غیر اعلانیہ حمایتی‘ سب Monsters ہی تو ہیں جو انسانوں کے ہاں پیدا ہوئے ہیں۔