پی ٹی وی مظفرآباد کا مقدمہ
یہ 5فروری2004 کا واقعہ ہے جب اس وقت کے صدر پاکستان نے آزاد کشمیر اسمبلی میں ایک کشمیری چینل کے قیام کی متفقہ قرارداد کی منظوری کے بعد مظفر آباد میں پاکستان ٹیلی ویژن کے زیر انتظام آزاد کشمیر ٹیلی ویژن کا افتتاح کیا۔ اس ٹیلی ویژن کے مقاصد تحریک آزادی کشمیر کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنا، مسلئہ کشمیر پر پاکستان کا اصولی موقف اور اس سلسلہ میں بھارت کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو بے نقاب کرنا، تحریک آزادی کشمیر کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال و کشمیری ثقافت کو دنیا کے سامنے پیش کرنا اور کشمیری عوام میں صحت مند تفریحی و تعلیم کے فر وغ کے لیئے کشمیر میں بولی جانے والی مختلف زبانوں میں نشریات شامل ہیں۔
ابتدا میںحکومت پاکستان کی طرف سے تقریبا 65کروڑ روپے کی خطیر رقم اس چینل کے لیئے مختص کی گئی ۔اور پی ٹی وی حکام کوہدایت کی گئی کہ وہ اس ٹیلی ویژن کو بتدریج چوبیس گنٹھے نشریات کے ساتھ ایک فعال چینل کے طور ہر ترقی دیں ۔طے ہوا کہ پاکستان ٹیلی ویژ ن کے دوسرے صوبائی مراکز کی طرح اس چینل آزاد کشمیر ٹیلی ویژن کے لیئے آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد میں باضابطہ ٹی وی سینٹراور کشمیر کے دوسرے دونوں ڈویژن میر پور اور پونچھ میں اس کے پروڈکشن ہاوئس بنائے جائیں گے۔ آزاد کشمیر ٹیلی ویژن کو عارضی بنیادوں پرریڈیوپاکستان مظفرآباد کی عمارت کے ایک حصہ میں شروع کیاگیا۔ملنے والی رقم کے معمولی حصہ سے ٹیلی ویژن کے لیئے اس وقت کے مطابق جدید ترین تکنیکی سازو سامان اورکیمرے خریدے گئے اور اسٹوڈیو کی تعمیر کی گئی۔ ضابطے کی تمام کاروایئوں کو پورا کرتے ہوئے آسامیوں کی تشہیرکی گئی اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے بہترین امیدواروں کوبھرتی کر کے پی ٹی وی اکیڈمی میں عملی تربیت دی گئی ۔ عملے کی انتھک محنت اور پیشہ وارانہ مہارت کے باعث آزاد کشمیر ٹیلی ویژن نے اپنے پیروں پہ کھڑاہونا شروع کیا۔ اردو سمیت کشمیر میں بولی جانے والی دوسری زبانوں میں نشریات، تحریک آزادی اور مسلئہ کشمیر کی ترویج اور پاکستان مخالف بھارتی پروپگنڈ ے کے موثر جواب پر پوری دنیا میں مقیم کشمیری عوام نے آزاد کشمیر ٹیلی ویژن کو اپنی آواز سمجھا اور خوب پذیرائی کی۔ روز بروزترقی کرتی اور کامیابی حاصل کرتی میڈیا انڈسٹری کے اس دور میں میڈیا کی سوجھ بوجھ رکھنے والوں نے اپنے ابتدائی مقاصد واہداف کو حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آمدنی کے لحاظ سے بھی اس چینل کے مستقبل کونہایت اہمیت کے حامل سمجھا۔اکتوبر2005کے تباہ کن زلزے میں اس ٹیلی ویژن کی عمارت بھی زمین بوس ہوگئی اور اس کی نشریات کا سلسلہ بھی عارضی طور پر رک گیاجسے بعد میں آزاد کشمیر ٹیلی ویژن کے سٹاف نے دن رات محنت کر کے پی ٹی وی کی مد د سے اگست 2006میں بحال کر دیاسے ۔ پری فیب سٹیکچرکے دفاتر اور جستی چادروں سے بنے اسٹوڈیو سے روزانہ معمول کے مطابق نشریات کے ساتھ ساتھ اہم قومی ایام کے موقع پریہاں سے طویل دورانیے کی نشریات کا سلسلہ تا حال جاری ہے ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ حکومتوں کے بدلتی کشمیر پالیسی کا پی ٹی وی حکام پر بھی گہرا اثر ہوا۔ پاکستان ٹیلیویژن کی انتظامیہ نے تحریک آزادی کشمیر کو دنیا کے سامنے اجاگر کرنے اور مسلئہ کشمیر پر پاکستان کا اصولی موقف کے دفاع اور اس سلسلہ میں بھارت کے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو بے نقاب کرنے کے لیئے قائم کیئے جانے والے آزاد کشمیر ٹیلی ویژن کی اہمیت کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اس چینل کے معاملات کو سرد خانہ میں ڈال دیا ۔ آج 14سال گزرنے کے باوجود آزاد کشمیر ٹیلی ویژن کانہ باضابطہ سینٹر بن سکا نہ اس پر تعینات ملازمین کوپی ٹی وی کے دیگر ملازمین کے برابرحقوق مل سکے۔
کوئی بھی قومی ادارہ صرف کاروباری طرز پر صرف نفع و نقصان کی بنیاد پر نہیں چلایا جا سکتا بالخصوص ایک ایسا نشریاتی ادارہ جس کا مقصد قومی پالیسی کا دفاع کرنا ، ازلی دشمن ہندوستان کے منفی پروپیگنڈے کا تدارک کرنا اور کشمیریوں کی لازوال تحریک آزادی کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ عوام الناس کی تعلیم و تربیت ہو اس کے لیئے منافع بخش نہ ہونا بھی کوئی خاص بات نہیںلیکن پی ٹی وی انتظامیہ نیک نیتی سے آزاد کشمیر ٹیلی ویژن کو باضابطہ چینلکی طرح چلائے تواشتہارات اور دیگرآمدن کے ذرائع سے یہ چینل اتنی رقم کمانے کی صلاحیت رکھتا ہے جس سے آزادکشمیر ٹیلی ویژن کے تمام اخراجات بطریق احسن پورے کرنے کے ساتھ ساتھ یہ پی ٹی وی کے لئے بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان سمیت دیگر ادارے اور وزارت اطلاعات و وزارت امورکشمیر اس صورت حال پر سنجیدگی سے توجہ دیں جس سے ایک جانب حکومت پاکستان کو اضافی آمدن سے محروم کیا جا رہا ہے اور دوسری جانب آزاد کشمیر کے عوام باالخصوص آزاد کشمیر ٹی وی کے ملازمین میں شدید احساس محرومی پیدا ہو رہا ہے۔ سیکورٹی اداروں کو اس پہلو پر بھی توجہ دینی چاہیے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے اہم رکن مسلئہ کشمیر کی ترویج کو روکنے یا اس میں روڑے اٹکانے کی اس سازش میں بھارت کے ساتھ آبی وسائل کے معاملات پاکستانی مفادات کے خلاف طے کرنے والے بیوروکریٹس کی طرح کا کوئی مسلئہ نہ ہو؟جبکہ آزاد کشمیرکے حکمرانوں اور دیگر قیادت کی طرف سے بھی اس اہم مسئلہ پر سنجیدگی سے اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔