حکومت‘ طالبان مذاکرات کے باعث ڈرون حملے محدود کرنے کا امریکی عندیہ …… مذاکرات نتیجہ خیز بنانے کے اقدامات حکومت اور طالبان کو خود اٹھانا ہیں
امریکی حکام کے مطابق اوبامہ انتظامیہ نے پاکستان کی طرف سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ڈرون حملے روکنے کی درخواست کے بعد پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے بہت حد تک محدود کر دیئے ہیں۔ اس سلسلہ میں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی خصوصی رپورٹ میں پاکستان کی درخواست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان نے ہم سے جو مانگا‘ اس کا ہم نے نفی میں جواب نہیں دیا۔ اسکے باوجود امریکی انتظامیہ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ سامنے آنیوالے القاعدہ کے سینئر رہنمائوں کیخلاف کارروائی کریگی اور امریکہ کو لاحق کسی بھی براہ راست خطرے کو ٹالنے کیلئے اقدام اٹھائے گی۔ امریکی اہلکار کے بقول ڈرون حملے محدود کرنے کے سلسلہ میں پاکستان کے ساتھ کوئی غیررسمی معاہدہ نہیں کیا گیا جبکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے‘ اس حوالے سے دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے پاکستان کیجانب سے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ڈرون حملوں کی جزوی نہیں بلکہ مکمل بندش چاہتا ہے کیونکہ ان حملوں میں نہ صرف معصوم لوگ مارے جاتے ہیں بلکہ یہ ہماری خودمختاری کے بھی خلاف ہیں۔
اس وقت جبکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے حکومت کی تشکیل کردہ کمیٹی اور طالبان کی اعلان کردہ کمیٹی کے مابین رابطوں اور مذاکرات کے ابتدائی مرحلے کا آغاز ہو گیا ہے‘ اس لئے مذاکرات کے اس عمل کو جاری رکھنے اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے ڈرون حملے نہ ہونا پاکستان کی ضرورت ہے جس کا یقیناً پاکستان کی جانب سے متعدد مواقع پر امریکہ سے تقاضا بھی کیا جاتا رہا ہے تاہم امریکہ نے پاکستان کے تقاضے پر نہیں بلکہ اپنی ضرورت اور مجبوری کے تحت ڈرون حملے محدود کئے ہیں۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نے گزشتہ ہفتے امریکی کانگرس میں اپنے ’’سٹیٹ آف یونین‘‘ خطاب کے دوران ڈرون حملے محدود کرنے کا اعلان کیا اور اس کا پس منظر یہ بتایا کہ ڈرون حملوں کے ردعمل میں چونکہ امریکی مخالفت میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ صورتحال امریکہ کی سلامتی کیلئے نقصان دہ ہو سکتی ہے‘ اس لئے ڈرون حملے محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں اگرچہ ڈرون حملے محدود کرنے کے سلسلہ میں پاکستان کی درخواست کا حوالہ دیا گیا ہے تاہم امریکی اہلکار نے واشگاف الفاظ میں یہ بھی بتایا کہ ڈرون حملے محدود کرنے کے سلسلہ میں پاکستان کے ساتھ کوئی غیررسمی معاہدہ نہیں کیا گیا اور امریکی انتظامیہ سامنے آنیوالے القاعدہ کے سینئر رہنمائوں کیخلاف ہر صورت کارروائی کریگی۔ امریکی اہلکار کا یہ بیان اس امر کا غماز ہے کہ القاعدہ کے کسی رہنماء کی موجودگی کی اطلاع پر ڈرون حملہ کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے اور امریکہ کو اس سے کوئی سروکار نظر نہیں آتا کہ ایسے کسی حملے سے حکومت پاکستان کے طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات متاثر ہو سکتے ہیں۔ واشنگٹن انتظامیہ ان مذاکرات کو پہلے ہی پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے چکی ہے اس لئے ڈرون حملے محدود کرنے کی امریکی پالیسی کو حکومت اور طالبان کے مذاکرات کے ساتھ نہیں جوڑا جا سکتا اور مذاکرات کیسے نتیجہ خیز بنانے ہیں‘ اس بارے میں حکومت پاکستان نے خود ہی کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہے۔
ڈرون حملے محدود کرنے سے متعلق اوبامہ کے بیان کے باوجود کسی بھی وقت پاکستان کی سرزمین پر ڈرون حملے کی پھر خبر آسکتی ہے اور یہ حملہ حکومت اور طالبان کے مذاکرات کے دوران بھی ہو سکتا ہے اس لئے ان مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کو امریکی ڈرون حملوں کی پالیسی کے ساتھ منسلک نہیں کیا جانا چاہیے۔ طالبان کمیٹی کے رکن مولانا سمیع الحق اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان بے شک ڈرون حملوں کے تناظر میں ہی حکومت کی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں‘ مولانا سمیع الحق نے تو اس معاملہ میں حکومت کے غیرمؤثر اور بے اختیار ہونے کا طعنہ بھی دے دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی باور کرایا ہے کہ ملک میں نفاذ شریعت اور امریکی فوج کے انخلاء تک قیام امن ممکن نہیں۔
اس تناظر میں جہاں حکومت کو مذاکرات نتیجہ خیز بنانے کے اقدامات اٹھانا ہیں‘ وہیں طالبان تنظیموں کو بھی ملکی اور قومی مفادات سامنے رکھ کر اپنے ناجائز تقاضوں اور شرائط سے دستکش ہونا ہو گا۔ اس تناظر میں قطع نظر اسکے کہ امریکہ ڈرون حملوں کے معاملہ میں کیا نئی پالیسی اختیار کر رہا ہے‘ حکومت پاکستان اور طالبان نمائندوں کو مذاکرات کی کامیابی کی خود ضمانت فراہم کرنا ہے جس کیلئے کم از کم حکومتی سطح پر پہلے جیسے ایسے کسی جواز کا سہارا نہیں لیا جانا چاہیے کہ ڈرون حملے نے مذاکرات سبوتاژ کر دیئے ہیں۔ ان ڈرون حملوں کے بغیر بھی تو مذاکرات کی کوششوں کے آغاز ہی میں خیبر پی کے‘ بلوچستان اور کراچی سنگین دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہے جبکہ اس دہشت گردی کو کسی ڈرون حملے کا ردعمل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اگر ملک میں دہشت گردی کے دوسرے پس منظر بھی موجود ہیں جس میں فرقہ واریت کی لعنت بھی شامل ہے تو اس کا سدباب حکومت نے اپنی ریاستی اتھارٹی کے ذریعے خود کرنا ہے۔ اگر حکومت مذاکرات کے ذریعے دہشت گردوں کو راہ راست پر لانے میں کامیاب نہیں ہوتی تو ملکی سلامتی اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی خاطر آئین‘ سسٹم اور ریاست کے سرکشوں کی ہرصورت سرکوبی ضروری ہو گی۔ حکومت کو مذاکرات کے عمل کے دوران بھی اپریشن کا آپشن بہرصورت پیش نظر رکھنا ہو گا ورنہ انتہا پسندی پر مبنی مائنڈ سیٹ کے ہاتھوں سکیورٹی فورسز کے ارکان‘ سیاسی شخصیات اور عام شہریوں کی جانیں ضائع ہونے سے بچانا انتہائی مشکل ہو جائیگا۔ مذاکرات کے عمل میں اسکے حسن و قبح کے تمام پہلوئوں کو پیش نظر رکھ کر ہی ملک میں امن کی مستقل بحالی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔