ملک و ملت کا سرمایہ …… حضرت مولانا عبدالرحمن اشرفی
جسٹس (ر) مولانامفتی محمد تقی عثمانی
حضرت مولانا عبد الرحمن اشرفی ؒ ان ہر دلعزیز شخصیات میں سے تھے جن کے ساتھ آج ’مدظلہ‘ کے بجائے ’رحمۃاللہ علیہ ‘ لکھتے ہوئے غم و اندوہ کی کیفیت کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے ۔مولانا یقینا ملک وملت کا ایک بڑا اثاثہ تھے جس کا خلا مدت تک محسوس کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بزرگوں کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا بھی خوب موقع عطا فرمایا تھا ۔آپ کی پیدائش 1933ء میں ہوئی اور آپ نے والد ماجد کے قائم کیے ہوئے عظیم مدرسے جامعہ اشرفیہ لاہور ہی میں تعلیم حاصل کی اور پھر زندگی بھر وہیں تدریس کی خدمات انجام دیں ۔مولانا عبد الرحمٰن خانقاہ اشرفی کے آفتاب و ماہتاب حضرت مولانا مفتی محمد حسن کے فرزندتھے ۔ آپ کے اندازِ گفتگو اور مزاج میں حضرت مفتی صاحب قدس سرہ کی شباہت شاید اپنے دوسرے بھائیوں سے زیادہ تھی۔ اسی وجہ سے شاید وہ قلبی عقیدت کا سب سے بڑا مرکز بھی سمجھے جاتے تھے ۔ چنانچہ بچپن کی لاپروائی میں بھی ہمارا معمول یہ تھا کہ لاہور جانے کابعد سب سے پہلے انتہائی اشتیاق کے ساتھ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضری دیتے ۔ صاحبزادہ حضرت مولانا عبدالرحمن اشرفی کو بھی دیکھا ہو گا، لیکن ان سے متعلق 1953ء یا 1954ء کا ایک واقعہ آج بھی یاد ہے۔ جس تقریب میں ملک بھر کے اکابر علما حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب ، حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی ، حضرت مولانا خیر محمد صاحب (رحمہ اللہ) مدعو تھے اور ان سب کی تقاریر کا انتظار تھا ۔ اُس وقت حضرت مولانا عبدالرحمن اشرفی بیس اِکیس سال کے نوجوان تھے اور اپنے والد ماجد کے ساتھ وہ بھی آئے ہوئے تھے اور جلسے کے آغاز میں پہلے خطاب کے لیے انہی کو دعوت دی گئی۔ انہوں نے اس نو عمری میں جو تقریر کی اس کی باتیں تو یاد نہیں ، لیکن یہ تأثر آج بھی تازہ ہے کہ وہ بڑی پختہ اور پُر مغز تقریر تھی۔
یہ ان کی نو عمری کا زمانہ تھا اور انہیں دورئہ حدیث سے فارغ ہوئے شاید دو تین سال سے زیادہ نہیں ہوئے ہوں گے ۔ اس کے باوجود ان کے اندازِگفتگو اور چال ڈھال سے ان کے درخشاں مستقبل کا اندازہ ہوتا تھا۔ راقم کی عمر تو اس وقت بمشکل دس گیارہ سال کی ہوگی ، اس لیے ان کی شخصیت کا ایک رعب دل پر قائم ہو گیا ، لیکن جوں جوں اُن سے قربت بڑھی ادب و احترام کے ساتھ اپنائیت بھی اختیارکر گئی ۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں علم راسخ کے ساتھ عبادت کا خاص ذوق عطا فرمایا تھا۔ مولانا عبد الرحمٰن پہلے حضرت مولانا رسول خان صاحب قدس سرہ اور ان کے بعد حضرت مولانا فقیر محمد ؒ سے مجاز بیعت قرار دیئے گئے ، لیکن ان کے اظہار میںدُور دُور اپنے علم یا تقدس کے احساس کا کوئی شائبہ نہیں تھا ۔ وہ باغ وبہار طبیعت کے مالک تھے اور جس بے تکلف محفل میں بیٹھ جاتے ، اسے اپنے لطائف و ظرائف سے کشتِ زعفران بنا دیتے۔
وہ عمر میں بھی مجھ سے دس سال بڑے تھے اور انہوں نے اس وقت تدریس اور اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا جب میں بالکل ابتدائی کتابیں پڑھتا تھا ،چنانچہ انہوں نے ہر قدم پر میری حوصلہ افزائی فرمائی ۔ چونکہ سالہا سال سے وہ صحیح مسلم کا درس دیتے تھے ، اس لیے فتح الملہم اور اس کا وہ تکملہ بھی ان کے مطالعے میں رہتا تھا جس کا وہ ذکر بھی فرماتے۔شروع میں وہ ایک فعال اور متحرک شخصیت تھے اور ان کے فیوض کا دائرہ ملک بھر میں بلکہ ملک سے باہر بھی پھیلا ہو ا تھا، لیکن آخری چند سالوں میں انہوں نے اپنے آپ کو مدرسے کی حدود میں محدود کر لیا تھا اور تدریس اور جامعہ اشرفیہ ہی کی مسجد میں خطابت کے علاوہ اوقات ہو ذکروعبادت میں صرف فرماتے تھے ۔ حضرت کی وفات سے چند مہینے پہلے میں لاہور میں تھا تو انہوں نے بڑی محبت سے مجھے دعوت دی کہ میں جمعہ کا خطاب جامعہ اشرفیہ کی ’مسجد الحسن‘ میں کروں۔ اس مسجد میں ہر ہفتے اُنہی کا خطاب ہوا کرتا تھا جسے سننے کے لیے لوگ دُور دُورسے آتے تھے لیکن ان کا اصرار ہوا کہ اس مرتبہ میں وہاں خطاب کروں ۔ تعمیل حکم کے لیے میں وہاں حاضر ہو اتو انہوں نے ابتدائی تعارفی کلمات میں مجھ ناچیز کی بہت ہمت افزائی فرمائی ۔اللہ اکبر! اپنے ایک ایسے نیاز مند کے لیے جو ان کے شاگردوں کے درجے کا ہو،ایسے الفاظ اداکئے جن کاہم جیسے لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے۔
اُس وقت حضرت مولانا پوری طرح صحت مند اور حسب معمول ہشاش بشاش تھے اور یہ بات حاشیہء خیال میں بھی نہ تھی کہ یہ اُن سے آخری ملاقات ہو گی۔ان کی وفات کے سال ذوالقعدہ،ذوالحجہ اور محرم کے مہینوں میں میں ایک طویل بیماری کا شکار رہا۔اس دوران وہ خود بیمار تھے لیکن فون پرمیری ہمت بندھاتے ہوئے اپنی بیماری کا کبھی ذکر نہ فرمایا۔ ہسپتال سے وہ گھر میں بھی منتقل ہوئے لیکن کچھ ہی دن بعد دوبارہ ہسپتال میں داخلے کی خبر ملی ۔ اسی دوران ایک مرتبہ پھر اُن سے ہسپتال ہی میں فون پر بات ہوئی تو اپنی تشویشناک حالت کے باوجود انہوں نے حسب معمول ظریفانہ گفتگو فرمائی۔یہ ان سے آخری گفتگو تھی ۔ اس کے فوراً بعد میں مجھے حجازِ مقدس کا سفر پیش آیا ، اور مجھے وہیں پر یہ اندوہناک خبر ملی تھی کہ وہ ۲۲ جنوری ۱۱۰۲ کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
آج وہ اس دنیا میں نہیں رہے، لیکن انہوں نے سالہا سال تک جو خدمات انجام دیں ، اُن کے اثرات انشاء اللہ تعالیٰ جاری وساری رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے مقامات قرب سے نوازیں اور انہیں جنت الفردوس کے اعلیٰ درجات سے سرفراز فرمائیں ۔ آمین ثم آمین۔