شاید بے وفائی بھی حسن ہی کا ایک پہلو ہے۔ ہاں اور شاید اس کے بغیر حسن نامکمل سا بھی رہتا ہے۔ پھر بت کافر کی بے وفائی بھی عاشق پیشہ لوگ وفا کی طرح ہی پوجتے اور سراہتے ہیں۔ بات مرزا غالب سے شروع کرتے ہیں ع
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو....... مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
ناصر کاظمی اس بے وفائی کا سرسری سا نوٹس لیتے ہیں۔ ع
میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے...... اوروں کو خط لکھتا ہو گا
حضرت بلھے شاہ نے سارا قصہ ختم کر ڈالا ع
بلھیا اوہدی اوہ جانے سانوں اپنی توڑ نبھاون دے
مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے سیاسی قائدین کو سیاسی قائد ہی نہیں رہنے دیا۔ انہیں پرسش کے کٹہرے کی بجائے پرستش کے سنگھاسن پر بٹھا رکھا ہے اور دن رات ان کی پوجاپاٹ میں مگن ہیں۔ پھر ان کی کج ادائیوں کے جواز ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ ادھر انہیں کوئی بات چھپانے کی فکر نہیں۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو 70ء کا الیکشن جیت کر یہ کہتے ہوئے بالکل نہیں ہچکچائے کہ ’میں نے سوشلزم کا راستہ روک دیا ہے، جیالے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگاتے ہوئے خوشی سے نہال ہو رہے تھے کہ دین بھی بچ گیا اور دنیا بھی پا لی۔ جناب لال خاں نے بھٹو کے انقلاب ہتھیا لے جانے کی اپنی کتاب ’’پاکستان کی اصل کہانی‘‘ میں پوری تفصیل لکھ ڈالی ہے۔ متحدہ مسلم لیگ کے مسئلہ میں گجرات کے چودھریوں کے بارے میں میاں نوازشریف کا فرمان کچھ یوں ہے: ’’فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف کا ساتھ دینے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا‘‘۔ یہ غیر سنجیدہ بات کتنی سنجیدگی سے بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ کیا سننے والے نہیں جانتے کہ میاں صاحب خود ایک فوجی ڈکٹیٹر کی زندگی جی رہے ہیں۔ جانے وہ قبولیت کی کیا گھڑی تھی جس دم جنرل ضیاء الحق کے منہ سے میاں نوازشریف کیلئے دعا نکلی ’تم کو ہماری عمر لگ جائے‘۔ کیا ایک فوجی ڈکٹیٹر کا ساتھ حلال ہے اور دوسرے کا حرام ہے؟ ع
یہ جناب شیخ کا فلسفہ میری سمجھ میں نہ آسکا...... جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے
محمد اظہار الحق نے اپنے ایک کالم میں پاکستان کے سبھی سیاسی قائدین کا کچا چٹھا بیان کیا ہے۔ انہیں ایم کیو ایم کے جاگیرداری نظام کے خلاف بیان بازی میں میل نظر آ رہا ہے۔ انہیں عمران خان کا بڑا گھر بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ ایک پوری پہاڑی پر یہ شہزادہ تن تنہا، بیوی بچوں کے بغیر، نوکروں کے لاؤ لشکر کے ساتھ رہتا ہے۔ عامیان اپنی اندھی عقیدت میں اندھے ہیں اور دانشور اپنی حرص و اغراض میںگھرے ہوئے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے پاک و ہند میں کرپشن پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا۔ وہ کرپشن کی بنیادی وجہ یہ ڈھونڈ پائیں کہ یہاں کوئی بھی محض اپنی زندگی بسر نہیں کرتا۔ یہاں ہر کسی کو اپنے بیٹوں اور پوتوں تک کی زندگیوں کی فکر لاحق ہے۔ مجھے گجرات سے ایک نوے سالہ چاک و چوبند بوڑھے کالم نگار کا فون آیا۔ ’’میری کالا باغ ڈیم پر لکھی کتاب شائع ہو گئی ہے‘‘۔ یہ باوقار سے بوڑھے اونچا سنتے ہیں اور بڑی دور کی سوچتے ہیں۔ لغزش پا میں بھی پابندی آداب سنبھالے پھرتے ہیں۔ انہوں نے پورے مشرف دور میں کالا باغ ڈیم کے خیال کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا۔ دیر آید درست آید درست ہی سہی لیکن کہیں ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔ ادھر ہمارے میاں نواز شریف بیچارے کالا باغ ڈیم کے ذکر سے کنی کترا کر گزر رہے ہیں۔ شاید کالا باغ ڈیم کے راستے میں وزیراعظم ہاؤس نہیں پڑتا۔ آغا حشر کے ڈرامہ میں ایک کردار نے ایک بار دیکھا تھا اور وہ دوسری بار دیکھنے کی ہوس لئے پھرتا تھا۔ یہ وزیراعظم ہاؤس دو مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔ اب تیسری مرتبہ دیکھنے کی خواہش ان سے سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔ مگر انہیں معلوم نہیں کہ یہ جناب بلاول زرداری بھٹو کی باری ہے۔ غریب عوام کی باری کب آئے گی؟ جب تاج اچھالے جائیں گے اور تخت گرائے جائیں گے۔ باری لینے کیلئے جاگنا پڑتا ہے۔ ادھر عوام گہری نیند سوئے ہوئے ہیں۔ جاگ اٹھیں گے تو انہیں بتاؤں گا کہ جب پرویز مشرف راجدھانی چھوڑ کر گیا تو ملک پینتیس ارب ڈالر کا مقروض تھا۔ تین سالہ جمہوری عہد میں قرض بڑھ کر 55 ارب 60 کروڑ ڈالر ہو چکا ہے۔ ہمیں صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی کے غیر ملکی پھیرے کتنے مہنگے پڑتے ہیں۔ اب تو ممبران پارلیمنٹ بھی چیخ رہے ہیں کہ ہمیں بھی سول اور فوجی افسروں کی سی مراعات ملنی چاہئیں۔ مشرف دور میں قرضوں کے سود کے ساتھ کچھ اصل زر بھی واپس کیا جاتا تھا۔ اب جمہوری دور میں قرضوں کے سود کی ادائیگی کیلئے بھی سود پر مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ پنجاب کے خادمین کے پاس جتنی دانش تھی وہ اسے جنوبی پنجاب کے دو دانش سکولوں کی بنیادوں میں کھپا بیٹھے ہیں۔ دیکھئے اب وہ کیا کرتے ہیں۔ ویسے انہوں نے خود مختار کالجوں کے بورڈ آف گورننس میں ایسے ’’عالم فاضل‘‘ بھی شامل کر دئیے ہیں جنہیں کالجوں کے در و دیوار زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھنے کا موقع میسر آیا ہے۔ ع
وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی....... کون سنتا ہے بھلا روز کہانی اپنی
تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو....... مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
ناصر کاظمی اس بے وفائی کا سرسری سا نوٹس لیتے ہیں۔ ع
میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے...... اوروں کو خط لکھتا ہو گا
حضرت بلھے شاہ نے سارا قصہ ختم کر ڈالا ع
بلھیا اوہدی اوہ جانے سانوں اپنی توڑ نبھاون دے
مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے سیاسی قائدین کو سیاسی قائد ہی نہیں رہنے دیا۔ انہیں پرسش کے کٹہرے کی بجائے پرستش کے سنگھاسن پر بٹھا رکھا ہے اور دن رات ان کی پوجاپاٹ میں مگن ہیں۔ پھر ان کی کج ادائیوں کے جواز ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ ادھر انہیں کوئی بات چھپانے کی فکر نہیں۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو 70ء کا الیکشن جیت کر یہ کہتے ہوئے بالکل نہیں ہچکچائے کہ ’میں نے سوشلزم کا راستہ روک دیا ہے، جیالے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگاتے ہوئے خوشی سے نہال ہو رہے تھے کہ دین بھی بچ گیا اور دنیا بھی پا لی۔ جناب لال خاں نے بھٹو کے انقلاب ہتھیا لے جانے کی اپنی کتاب ’’پاکستان کی اصل کہانی‘‘ میں پوری تفصیل لکھ ڈالی ہے۔ متحدہ مسلم لیگ کے مسئلہ میں گجرات کے چودھریوں کے بارے میں میاں نوازشریف کا فرمان کچھ یوں ہے: ’’فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف کا ساتھ دینے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا‘‘۔ یہ غیر سنجیدہ بات کتنی سنجیدگی سے بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ کیا سننے والے نہیں جانتے کہ میاں صاحب خود ایک فوجی ڈکٹیٹر کی زندگی جی رہے ہیں۔ جانے وہ قبولیت کی کیا گھڑی تھی جس دم جنرل ضیاء الحق کے منہ سے میاں نوازشریف کیلئے دعا نکلی ’تم کو ہماری عمر لگ جائے‘۔ کیا ایک فوجی ڈکٹیٹر کا ساتھ حلال ہے اور دوسرے کا حرام ہے؟ ع
یہ جناب شیخ کا فلسفہ میری سمجھ میں نہ آسکا...... جو وہاں پیو تو حلال ہے جو یہاں پیو تو حرام ہے
محمد اظہار الحق نے اپنے ایک کالم میں پاکستان کے سبھی سیاسی قائدین کا کچا چٹھا بیان کیا ہے۔ انہیں ایم کیو ایم کے جاگیرداری نظام کے خلاف بیان بازی میں میل نظر آ رہا ہے۔ انہیں عمران خان کا بڑا گھر بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ ایک پوری پہاڑی پر یہ شہزادہ تن تنہا، بیوی بچوں کے بغیر، نوکروں کے لاؤ لشکر کے ساتھ رہتا ہے۔ عامیان اپنی اندھی عقیدت میں اندھے ہیں اور دانشور اپنی حرص و اغراض میںگھرے ہوئے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے پاک و ہند میں کرپشن پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا۔ وہ کرپشن کی بنیادی وجہ یہ ڈھونڈ پائیں کہ یہاں کوئی بھی محض اپنی زندگی بسر نہیں کرتا۔ یہاں ہر کسی کو اپنے بیٹوں اور پوتوں تک کی زندگیوں کی فکر لاحق ہے۔ مجھے گجرات سے ایک نوے سالہ چاک و چوبند بوڑھے کالم نگار کا فون آیا۔ ’’میری کالا باغ ڈیم پر لکھی کتاب شائع ہو گئی ہے‘‘۔ یہ باوقار سے بوڑھے اونچا سنتے ہیں اور بڑی دور کی سوچتے ہیں۔ لغزش پا میں بھی پابندی آداب سنبھالے پھرتے ہیں۔ انہوں نے پورے مشرف دور میں کالا باغ ڈیم کے خیال کو اپنے پاس پھٹکنے نہیں دیا۔ دیر آید درست آید درست ہی سہی لیکن کہیں ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔ ادھر ہمارے میاں نواز شریف بیچارے کالا باغ ڈیم کے ذکر سے کنی کترا کر گزر رہے ہیں۔ شاید کالا باغ ڈیم کے راستے میں وزیراعظم ہاؤس نہیں پڑتا۔ آغا حشر کے ڈرامہ میں ایک کردار نے ایک بار دیکھا تھا اور وہ دوسری بار دیکھنے کی ہوس لئے پھرتا تھا۔ یہ وزیراعظم ہاؤس دو مرتبہ دیکھ چکے ہیں۔ اب تیسری مرتبہ دیکھنے کی خواہش ان سے سنبھالے نہیں سنبھل رہی۔ مگر انہیں معلوم نہیں کہ یہ جناب بلاول زرداری بھٹو کی باری ہے۔ غریب عوام کی باری کب آئے گی؟ جب تاج اچھالے جائیں گے اور تخت گرائے جائیں گے۔ باری لینے کیلئے جاگنا پڑتا ہے۔ ادھر عوام گہری نیند سوئے ہوئے ہیں۔ جاگ اٹھیں گے تو انہیں بتاؤں گا کہ جب پرویز مشرف راجدھانی چھوڑ کر گیا تو ملک پینتیس ارب ڈالر کا مقروض تھا۔ تین سالہ جمہوری عہد میں قرض بڑھ کر 55 ارب 60 کروڑ ڈالر ہو چکا ہے۔ ہمیں صدر زرداری اور وزیراعظم گیلانی کے غیر ملکی پھیرے کتنے مہنگے پڑتے ہیں۔ اب تو ممبران پارلیمنٹ بھی چیخ رہے ہیں کہ ہمیں بھی سول اور فوجی افسروں کی سی مراعات ملنی چاہئیں۔ مشرف دور میں قرضوں کے سود کے ساتھ کچھ اصل زر بھی واپس کیا جاتا تھا۔ اب جمہوری دور میں قرضوں کے سود کی ادائیگی کیلئے بھی سود پر مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ پنجاب کے خادمین کے پاس جتنی دانش تھی وہ اسے جنوبی پنجاب کے دو دانش سکولوں کی بنیادوں میں کھپا بیٹھے ہیں۔ دیکھئے اب وہ کیا کرتے ہیں۔ ویسے انہوں نے خود مختار کالجوں کے بورڈ آف گورننس میں ایسے ’’عالم فاضل‘‘ بھی شامل کر دئیے ہیں جنہیں کالجوں کے در و دیوار زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھنے کا موقع میسر آیا ہے۔ ع
وہی قصے ہیں وہی بات پرانی اپنی....... کون سنتا ہے بھلا روز کہانی اپنی