پروفیسر محمد یوسف عرفان
استاد گرامی پروفیسر محمد منور سچے پاکستانی اور پکے مسلمان تھے۔ آپ اسلام اور پاکستان کو لازم و ملزوم جانتے تھے۔ آپ کے نزدیک پاکستان کا قیام اور بقا اسلامی تصادم کے نفاذ میں مضمر ہے۔ علامہ اقبال نے پاکستان کو نظریاتی جواز اور اساس مہیا کی جبکہ قائد اعظم نے نظریاتی ریاست فراہم کی۔ آپ کہا کرتے تھے کہ پاکستان سے محبت کا فطری تقاضا ہے کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال سے محبت کی جائے اور کوئی دعویٰ کرے کہ مجھے پاکستان سے پیار ہے مگر قائد اعظم اور علامہ اقبال کے اخلاص اور کردار میں کیڑے نکالتا ہے تو اس کی حب الوطنی مشکوک ہے۔
آپ نہ آمریت کے حامی تھے اور نہ جمہوریت کے مخالف بلکہ نظریاتی پاکستان میں نظریاتی اسلامی نظام کے خواہاں تھے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ تصادم وہ اچھا جو پاکستان کو مضبوط کرے اور خطے کے مسلمانوں کے مستقبل کو محفوظ بنائے۔ آپ ایوبی آمریت سے پہلے پائی جانے والی سیاسی نفسانفسی اور جمہوری افراتفری سے نالاں تھے اور ایوبی آمریت کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کے حامی تھے۔ مگر جب بھٹو نے شیخ مجیب الرحمان کی جمہوری جیت کو تسلیم نہیں کیا اور حکومتی و فوجی اکابرین کے ساتھ مل کر اِدھر ہم اُدھر تم کا نعرہ لگایا تو استاد گرامی بھٹو کے مخالف بن گئے بلکہ جب بھٹو نے ایوب خان کی گول میز کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا تو استاد گرامی نے بھٹو کے خلاف قلمی جہاد شروع کر دیا۔ اب ضیاءالحق کے نفاذ اسلام کی رفتار کار کے شاکی تھے مگر پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے ضیاءالحق کے افغان جہاد پالیسی کے زبردست ممدومعاون تھے بلکہ عالم اسلام کے پہلے فرد فرزند تھے جنہوں نے کابل پر روسی قبضے کے خلاف قلمی مزاحمت کا آغاز کیا جو بالآخر جہاد مزاحمت کا باعث بنا اور یہی مزاحمتی پالیسی خطے کے مسلمانوں اور اسلامی پاکستان کی بقا کی ضامن ہے۔ 27 دسمبر 1979 کی شب روسی افواج کابل میں اتریں اور استاد گرامی نے صبح سات بجے 27 اشعار پر مبنی فارسی نظم بعنوان ”ندائے افغاناں“ بنام ہر یکے از مجاہدین اسلام“ رقم کی۔
پروفیسر محمد منور سچ کہنے اور سننے کے عادی تھے۔ آپ نے ذاتی مفاد بلکہ حیات کو بھی قومی و ملی مفاد پر ترجیح دی علامہ اقبال کی صد سالہ تقریبات کے باب میں حکومتی میٹنگ تھی بھٹو صاحب کی صدارت تھی چاروں صوبوں کے گورنر وزرائے اعلیٰ احمد ندیم قاسمی، چیف سیکرٹری اور علمی و ادبی اکابرین بشمول فیض احمد فیض ڈاکٹر جاوید اقبال، وحید قریشی مرحوم موجود تھے۔ میٹنگ میں بات چل نکلی کہ اقبال کی مقبولیت کا دائرہ کار بڑھانے کے لئے اقبال کو استہزائی شاعر بنا کر پیش کیا جائے۔ استاد گرامی نے مذکورہ م¶قف کی شدید مخالفت کی اور کہا اقبال اللہ و رسول سے مخلصانہ وفا کا درس دیتے ہیں۔ دغا کا نہیں۔
بحق دل بندو راہ مصطفٰی رو
اسی میٹنگ میں علامہ اقبال کی سوانخ عمری لکھنے کا کام فیص احمد فیض اینڈ کمپنی کے سپرد کیا جا رہا تھا آپ نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے ہی ہے جیسے بھٹو صاحب کی سوانح عمری ولی خان سے لکھوا لی جائے۔ استاد گرامی کی جراؑ¿ت حق گوئی نہ جابر حکمران سے مرعوب ہوئی تھی اور نہ اسلام پسند ضیاءالحق سے متاثر ہوئی تھی۔ آپ ضیاءالحق کی زندگی میں ضیاءالحق سے کئی امور میں اختلاف کرتے تھے۔
استاد گرامی پروفیسر محمد منور بھارت کے ضمن میں پاکستان کی دفاعی پالیسی کے ناقد تھے۔ آپ بھارت کے ضمن میں جارحانہ پالیسی کے حامی تھے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ بھارتی جارحیت کا جواب جارحانہ پالیسی ہے۔ پاکستان بھارتی جارحیت کا جواب دیتے دیتے تھک جائے گا۔ لہٰذا بھارت کو جارحانہ پالیسی کے باعث اپنے اندر کے معاملات میں الجھا دیا جائے۔ آپ ضیاءالحق کی تحریک خالصتان از جنوبی بھارت میں مسلم اچھوت اتحاد اور ریاست کے حامی تھے ۔ آپ کہا کرتے کہ بھارت امن، سلامتی اور پیار کی زبان نہیں سمجھتا اس نے پاکستان کو زچ کر رکھا ہے۔ کبھی بھارت پیار کی جارحیت پر چلتا ہے اور کبھی مار کی۔ آج کل جنگ اور ٹائمز آف انڈیا کے میڈیا گروپ پاک بھارت ”امن کی آشا“ کا راگ الاپ رہے ہیں۔ راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ استاد گرامی نے ایک بڑے اخباری گروپ کے موجودہ مالک سے گفتگو کے دوران برملا کہا تھا کہ جناب دولت بہت کما لی۔ آپ کی نسلیں بھی کھائیں تو ختم نہیں ہو گی لہٰذا اپنا مستقبل پاکستان کی نظریاتی سلامتی اور امت کے روشن مستقبل وابستہ کریں۔ فی الحال آپ کا گروپ پاک سرزمین میں بھارتی روسی اور امریکی مفادات کا جزیرہ ہے جس کا تدارک کریں“ مذکورہ بالا مکالمہ ”ڈاکٹر مجاہد منصوری، عطاءالرحمن اور محمد علی درانی وغیرہ کی موجودگی میں ہوا تھا
ہرگز نمیرد آنکہ دنش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدہ عالم دوام ما!
استاد گرامی پروفیسر محمد منور سچے پاکستانی اور پکے مسلمان تھے۔ آپ اسلام اور پاکستان کو لازم و ملزوم جانتے تھے۔ آپ کے نزدیک پاکستان کا قیام اور بقا اسلامی تصادم کے نفاذ میں مضمر ہے۔ علامہ اقبال نے پاکستان کو نظریاتی جواز اور اساس مہیا کی جبکہ قائد اعظم نے نظریاتی ریاست فراہم کی۔ آپ کہا کرتے تھے کہ پاکستان سے محبت کا فطری تقاضا ہے کہ قائد اعظم اور علامہ اقبال سے محبت کی جائے اور کوئی دعویٰ کرے کہ مجھے پاکستان سے پیار ہے مگر قائد اعظم اور علامہ اقبال کے اخلاص اور کردار میں کیڑے نکالتا ہے تو اس کی حب الوطنی مشکوک ہے۔
آپ نہ آمریت کے حامی تھے اور نہ جمہوریت کے مخالف بلکہ نظریاتی پاکستان میں نظریاتی اسلامی نظام کے خواہاں تھے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ تصادم وہ اچھا جو پاکستان کو مضبوط کرے اور خطے کے مسلمانوں کے مستقبل کو محفوظ بنائے۔ آپ ایوبی آمریت سے پہلے پائی جانے والی سیاسی نفسانفسی اور جمہوری افراتفری سے نالاں تھے اور ایوبی آمریت کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کے حامی تھے۔ مگر جب بھٹو نے شیخ مجیب الرحمان کی جمہوری جیت کو تسلیم نہیں کیا اور حکومتی و فوجی اکابرین کے ساتھ مل کر اِدھر ہم اُدھر تم کا نعرہ لگایا تو استاد گرامی بھٹو کے مخالف بن گئے بلکہ جب بھٹو نے ایوب خان کی گول میز کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا تو استاد گرامی نے بھٹو کے خلاف قلمی جہاد شروع کر دیا۔ اب ضیاءالحق کے نفاذ اسلام کی رفتار کار کے شاکی تھے مگر پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے ضیاءالحق کے افغان جہاد پالیسی کے زبردست ممدومعاون تھے بلکہ عالم اسلام کے پہلے فرد فرزند تھے جنہوں نے کابل پر روسی قبضے کے خلاف قلمی مزاحمت کا آغاز کیا جو بالآخر جہاد مزاحمت کا باعث بنا اور یہی مزاحمتی پالیسی خطے کے مسلمانوں اور اسلامی پاکستان کی بقا کی ضامن ہے۔ 27 دسمبر 1979 کی شب روسی افواج کابل میں اتریں اور استاد گرامی نے صبح سات بجے 27 اشعار پر مبنی فارسی نظم بعنوان ”ندائے افغاناں“ بنام ہر یکے از مجاہدین اسلام“ رقم کی۔
پروفیسر محمد منور سچ کہنے اور سننے کے عادی تھے۔ آپ نے ذاتی مفاد بلکہ حیات کو بھی قومی و ملی مفاد پر ترجیح دی علامہ اقبال کی صد سالہ تقریبات کے باب میں حکومتی میٹنگ تھی بھٹو صاحب کی صدارت تھی چاروں صوبوں کے گورنر وزرائے اعلیٰ احمد ندیم قاسمی، چیف سیکرٹری اور علمی و ادبی اکابرین بشمول فیض احمد فیض ڈاکٹر جاوید اقبال، وحید قریشی مرحوم موجود تھے۔ میٹنگ میں بات چل نکلی کہ اقبال کی مقبولیت کا دائرہ کار بڑھانے کے لئے اقبال کو استہزائی شاعر بنا کر پیش کیا جائے۔ استاد گرامی نے مذکورہ م¶قف کی شدید مخالفت کی اور کہا اقبال اللہ و رسول سے مخلصانہ وفا کا درس دیتے ہیں۔ دغا کا نہیں۔
بحق دل بندو راہ مصطفٰی رو
اسی میٹنگ میں علامہ اقبال کی سوانخ عمری لکھنے کا کام فیص احمد فیض اینڈ کمپنی کے سپرد کیا جا رہا تھا آپ نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے ہی ہے جیسے بھٹو صاحب کی سوانح عمری ولی خان سے لکھوا لی جائے۔ استاد گرامی کی جراؑ¿ت حق گوئی نہ جابر حکمران سے مرعوب ہوئی تھی اور نہ اسلام پسند ضیاءالحق سے متاثر ہوئی تھی۔ آپ ضیاءالحق کی زندگی میں ضیاءالحق سے کئی امور میں اختلاف کرتے تھے۔
استاد گرامی پروفیسر محمد منور بھارت کے ضمن میں پاکستان کی دفاعی پالیسی کے ناقد تھے۔ آپ بھارت کے ضمن میں جارحانہ پالیسی کے حامی تھے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ بھارتی جارحیت کا جواب جارحانہ پالیسی ہے۔ پاکستان بھارتی جارحیت کا جواب دیتے دیتے تھک جائے گا۔ لہٰذا بھارت کو جارحانہ پالیسی کے باعث اپنے اندر کے معاملات میں الجھا دیا جائے۔ آپ ضیاءالحق کی تحریک خالصتان از جنوبی بھارت میں مسلم اچھوت اتحاد اور ریاست کے حامی تھے ۔ آپ کہا کرتے کہ بھارت امن، سلامتی اور پیار کی زبان نہیں سمجھتا اس نے پاکستان کو زچ کر رکھا ہے۔ کبھی بھارت پیار کی جارحیت پر چلتا ہے اور کبھی مار کی۔ آج کل جنگ اور ٹائمز آف انڈیا کے میڈیا گروپ پاک بھارت ”امن کی آشا“ کا راگ الاپ رہے ہیں۔ راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ استاد گرامی نے ایک بڑے اخباری گروپ کے موجودہ مالک سے گفتگو کے دوران برملا کہا تھا کہ جناب دولت بہت کما لی۔ آپ کی نسلیں بھی کھائیں تو ختم نہیں ہو گی لہٰذا اپنا مستقبل پاکستان کی نظریاتی سلامتی اور امت کے روشن مستقبل وابستہ کریں۔ فی الحال آپ کا گروپ پاک سرزمین میں بھارتی روسی اور امریکی مفادات کا جزیرہ ہے جس کا تدارک کریں“ مذکورہ بالا مکالمہ ”ڈاکٹر مجاہد منصوری، عطاءالرحمن اور محمد علی درانی وغیرہ کی موجودگی میں ہوا تھا
ہرگز نمیرد آنکہ دنش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدہ عالم دوام ما!