ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی ایک بار پھر دست و گریباں ہیں اور مجھے یقین ہے اس کالم کی اشاعت تک وہ پھر ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے کھڑے ہونگے۔ محترمہ وزیراعظم اور ان کے دوسرے ”قابل فخر رفقائے کار“ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے کے عمل کو ”قومی مفاہمت“ کا حصہ یا جذبہ قرار دیتے ہیں۔ اللہ جانے یہ کیسی ”قومی مفاہمت“ ہے جس میں ایک لمحے میں یہ ایک دوسرے کے ذاتی دشمن محسوس ہونے لگتے ہیں تو دوسرے لمحے میں قریبی عزیز.... سندھ اسمبلی کی ”مچھلی منڈی“ میں صوبائی وزیر بلدیات نے ناظم کراچی کو نفسیاتی مریض قرار دیا، ممکن ہے کل وہ انہیں نفسیاتی مریضوں کا بہترین معالج قرار دے رہے ہوں۔ کوئی ان سے پوچھ سکتا ہے حضور اہل کراچی کا کیا قصور ہے کہ آپ کی جماعت نے ایک ”نفسیاتی مریض“ کو ناظم کے طور پر مسلط کیا ہوا ہے؟ ایک اور وزیر کا فرمان ہے اب ”بدمعاشوں“ سے کوئی رعایت نہیں ہو گی۔ ان سے بھی کوئی پوچھے جناب آپ کی جماعت گزشتہ دو برسوں سے ”بدمعاشوں“ کے ساتھ جو رعایت کر رہی ہے، اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ جو سندھ خصوصاً کراچی میں اب تک بیسیوں شہری ”سیاسی بدمعاشی“ کی نذر ہو چکے ہیں ان کا قصور کیا تھا؟.... ایم کیو ایم سے تو کام کا کوئی جواب بھی نہیں بن پایا۔ یہ بیان کتنا مضحکہ خیز ہے کہ پیپلز پارٹی کے وزراءسلطان راہی اور مصطفی قریشی بننے کی کوشش نہ کریں۔ ”جنم جنم کی اقتداری جماعت“ کو شاید معلوم نہیں سلطان راہی ذاتی زندگی میں انتہائی نیک اور شریف انسان تھے، لوگ آج بھی انہیں اچھے الفاظ کے ساتھ ہی یاد کرتے ہیں اور مصطفی قریشی کے کردار سے بھی اِک جہاں آشنا ہے۔ ایسی شخصیات کو پیپلز پارٹی کے وزراءسے ملانا زیادتی کی بات ہے۔
سندھ اسمبلی کی ”مچھلی منڈی“ کا دروازہ ایک بار پھر منافقت کے اس روایتی تالے سے بند کر دیا گیا کہ آئندہ دونوں اتحادی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہیں کریں گی۔ زرداری بھائی نے اپنی پارٹی کے لوگوں سے ناراض ہونے کی ”اداکاری“ کی ور الطاف بھائی نے اپنی پارٹی کے لوگوں سے۔ یہ تالہ اب دوبارہ کتنے دنوں بعد کھلتا ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ”قومی مفاہمت“ کے جو مناظر گزشتہ دو برسوں میں ہم دیکھتے چلے آ رہے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے یہ مفاہمتی پالیسی نہیں ”منافقتی پالیسی“ ہے۔ ایک دوسرے کے مفاد پورے ہوتے رہیں تو ایک دوسرے کے بہترین ساتھی، نہ پورے ہوں تو جانی دشمن۔ صوبوں اور مرکز میں اتحادی جماعتوں نے اب تک جتنی لڑائیاں لڑیں کوئی ایک بھی عوام کے مفاد میں نہیں لڑی گئی۔ ایم کیو ایم کبھی اس بات پر حکمران جماعت سے روٹھی کہ عوام کو بجلی کے جھٹکے کیوں دیئے جاتے ہیں؟ اے این پی نے کبھی اس بات پر حکمران جماعت کو الگ ہونے کی دھمکی دی کہ پٹرول کی قیمتیں بار بار کیوں بڑھائی جاتی ہیں؟ کیا پنجاب میں حکمران جماعت نے اس بات پر اپنے ساتھ زبردستی جڑی ہوئی جماعت کو الگ کرنے کی کوشش کی کہ مرکز میں عوام دشمن فیصلوں کی وجہ سے ہم آپ کو مزید اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کا رسک نہیں لے سکتے؟ کیا حکومتی جماعت نے سندھ میں کبھی ایم کیو ایم کو اس بناءپر الگ کر دینے کے بارے میں سوچا کہ صوبے خصوصاً کراچی میں ان کے رویے نے لوگوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے؟.... جی نہیں کوئی اتحادی جماعت عوام کے کسی مسئلے پر لڑے گی نہ مل کر بیٹھے گی۔ ان کی لڑائی بھی ذاتی مفادات کیلئے صلح بھی۔ ان کی لڑائیوں اور صلح صفائیوں کی تاریخ اتنی غلیظ ہے کہ اب اس میں جھانکتے ہوئے بھی گھن آتی ہے!
الطاف بھائی کا شکریہ کہ گزشتہ روز پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کی انہوں نے مذمت کر دی حالانکہ عوام دوستی کا جتنا دم یہ جماعت بھرتی ہے ہمارا خیال تھا اس ایشو پر ان کے وزراءدوبارہ واپس لینے کے لئے ہی سہی ایک بار استعفے ضرور دے دیں گے۔ کچھ ”مزید ڈیمانڈز“ نہ ہوتیں تو شاید مذمت کی ضرورت بھی محسوس نہ کی جاتی۔ ایسا ہی ایک ”مذمتی بیان“ اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت نے بھی جاری کیا ہے۔ عوام کو اس کا بھی شکرگزار ہونا چاہئے کہ صوبے کے حکومتی معاملات میں انتہائی مصروفیت کے باوجود مذمتی بیان جاری کرنے کے لئے وقت نکال لینا معمولی بات نہیں۔ ویسے صوبے میں ایک ٹاسک فورس مذمتی بیان جاری کرنے کیلئے بھی ہونی چاہئے۔ ادھر مرکزی حکومت کوئی عوام دشمن فیصلہ کرے ادھر ”ٹاسک فورس برائے بیانات“ اس کے خلاف بیان جاری کر کے ثابت کر دے کہ بیانات دینے کے معاملے میں اپوزیشن عوام کے ساتھ اتنی مخلص ہے کہ مرکز کا کوئی عوام دشمن فیصلہ ایسا نہیں ہوتا جس کے خلاف بیان جاری نہ کیا جاتا ہو۔ اگلے انتخابات میں ”اپوزیشنی جماعتوں“ کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے اور کوئی کارنامہ ہو نہ ہو یہ ضرور ہوا کہ ہم نے سرکار کے عوام دشمن فیصلے کے خلاف ڈٹ کر بیان جاری کیا تھا اور ”اپوزیشنی جماعتوں“ کو کچھ ظاہری و باطنی قوتوں کی سرپرستی یا حمایت حاصل ہو گئی تو ممکن ہے اسی ایک ”کارنامے“ کی بنیاد پر وہ اتنے ووٹ حاصل کر لیں کہ حکومت بنانا ان کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔
کس قدر المیہ ہے موجودہ اتحادی حکمران کے دو برس بیتنے والے ہیں اور اب تک یہ سوائے ایک دوسرے کے بازو پکڑنے یا ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے کچھ نہیں کر سکے۔ اس کے علاوہ کچھ کرنے کے شاید یہ اہل بھی نہیں۔ اس کے باوجود عوام انہیں بار بار منتخب کرتے ہیں تو اس میں ان بے چاروں کا کیا قصور ہے؟ یہ تو بار بار ثابت کرتے ہیں کہ ہم حکومت چلانے کے اہل نہیں۔ عوام اس پر یقین نہ کریں تو پھر جو سزا یہ عوام کو دیتے ہیں عوام اس کے حق دار نہیں؟.... ویسے ”اتحادی جماعتیں“ اپنی ”سوکن لڑائی“ میں ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے کا جو فریضہ ذوق و شوق سے سرانجام دیتی ہیں اس پر عوام کو ان کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ ان کے بارے میں جو ”حقائق“ عوام سے پوشیدہ ہوتے ہیں، یہ خود ہی عوام کو بتا دیتی ہیں!
سندھ اسمبلی کی ”مچھلی منڈی“ کا دروازہ ایک بار پھر منافقت کے اس روایتی تالے سے بند کر دیا گیا کہ آئندہ دونوں اتحادی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی نہیں کریں گی۔ زرداری بھائی نے اپنی پارٹی کے لوگوں سے ناراض ہونے کی ”اداکاری“ کی ور الطاف بھائی نے اپنی پارٹی کے لوگوں سے۔ یہ تالہ اب دوبارہ کتنے دنوں بعد کھلتا ہے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ”قومی مفاہمت“ کے جو مناظر گزشتہ دو برسوں میں ہم دیکھتے چلے آ رہے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے یہ مفاہمتی پالیسی نہیں ”منافقتی پالیسی“ ہے۔ ایک دوسرے کے مفاد پورے ہوتے رہیں تو ایک دوسرے کے بہترین ساتھی، نہ پورے ہوں تو جانی دشمن۔ صوبوں اور مرکز میں اتحادی جماعتوں نے اب تک جتنی لڑائیاں لڑیں کوئی ایک بھی عوام کے مفاد میں نہیں لڑی گئی۔ ایم کیو ایم کبھی اس بات پر حکمران جماعت سے روٹھی کہ عوام کو بجلی کے جھٹکے کیوں دیئے جاتے ہیں؟ اے این پی نے کبھی اس بات پر حکمران جماعت کو الگ ہونے کی دھمکی دی کہ پٹرول کی قیمتیں بار بار کیوں بڑھائی جاتی ہیں؟ کیا پنجاب میں حکمران جماعت نے اس بات پر اپنے ساتھ زبردستی جڑی ہوئی جماعت کو الگ کرنے کی کوشش کی کہ مرکز میں عوام دشمن فیصلوں کی وجہ سے ہم آپ کو مزید اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کا رسک نہیں لے سکتے؟ کیا حکومتی جماعت نے سندھ میں کبھی ایم کیو ایم کو اس بناءپر الگ کر دینے کے بارے میں سوچا کہ صوبے خصوصاً کراچی میں ان کے رویے نے لوگوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے؟.... جی نہیں کوئی اتحادی جماعت عوام کے کسی مسئلے پر لڑے گی نہ مل کر بیٹھے گی۔ ان کی لڑائی بھی ذاتی مفادات کیلئے صلح بھی۔ ان کی لڑائیوں اور صلح صفائیوں کی تاریخ اتنی غلیظ ہے کہ اب اس میں جھانکتے ہوئے بھی گھن آتی ہے!
الطاف بھائی کا شکریہ کہ گزشتہ روز پٹرول کی قیمتیں بڑھنے کی انہوں نے مذمت کر دی حالانکہ عوام دوستی کا جتنا دم یہ جماعت بھرتی ہے ہمارا خیال تھا اس ایشو پر ان کے وزراءدوبارہ واپس لینے کے لئے ہی سہی ایک بار استعفے ضرور دے دیں گے۔ کچھ ”مزید ڈیمانڈز“ نہ ہوتیں تو شاید مذمت کی ضرورت بھی محسوس نہ کی جاتی۔ ایسا ہی ایک ”مذمتی بیان“ اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت نے بھی جاری کیا ہے۔ عوام کو اس کا بھی شکرگزار ہونا چاہئے کہ صوبے کے حکومتی معاملات میں انتہائی مصروفیت کے باوجود مذمتی بیان جاری کرنے کے لئے وقت نکال لینا معمولی بات نہیں۔ ویسے صوبے میں ایک ٹاسک فورس مذمتی بیان جاری کرنے کیلئے بھی ہونی چاہئے۔ ادھر مرکزی حکومت کوئی عوام دشمن فیصلہ کرے ادھر ”ٹاسک فورس برائے بیانات“ اس کے خلاف بیان جاری کر کے ثابت کر دے کہ بیانات دینے کے معاملے میں اپوزیشن عوام کے ساتھ اتنی مخلص ہے کہ مرکز کا کوئی عوام دشمن فیصلہ ایسا نہیں ہوتا جس کے خلاف بیان جاری نہ کیا جاتا ہو۔ اگلے انتخابات میں ”اپوزیشنی جماعتوں“ کے پاس عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے اور کوئی کارنامہ ہو نہ ہو یہ ضرور ہوا کہ ہم نے سرکار کے عوام دشمن فیصلے کے خلاف ڈٹ کر بیان جاری کیا تھا اور ”اپوزیشنی جماعتوں“ کو کچھ ظاہری و باطنی قوتوں کی سرپرستی یا حمایت حاصل ہو گئی تو ممکن ہے اسی ایک ”کارنامے“ کی بنیاد پر وہ اتنے ووٹ حاصل کر لیں کہ حکومت بنانا ان کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہ ہو۔
کس قدر المیہ ہے موجودہ اتحادی حکمران کے دو برس بیتنے والے ہیں اور اب تک یہ سوائے ایک دوسرے کے بازو پکڑنے یا ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے کچھ نہیں کر سکے۔ اس کے علاوہ کچھ کرنے کے شاید یہ اہل بھی نہیں۔ اس کے باوجود عوام انہیں بار بار منتخب کرتے ہیں تو اس میں ان بے چاروں کا کیا قصور ہے؟ یہ تو بار بار ثابت کرتے ہیں کہ ہم حکومت چلانے کے اہل نہیں۔ عوام اس پر یقین نہ کریں تو پھر جو سزا یہ عوام کو دیتے ہیں عوام اس کے حق دار نہیں؟.... ویسے ”اتحادی جماعتیں“ اپنی ”سوکن لڑائی“ میں ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے کا جو فریضہ ذوق و شوق سے سرانجام دیتی ہیں اس پر عوام کو ان کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ ان کے بارے میں جو ”حقائق“ عوام سے پوشیدہ ہوتے ہیں، یہ خود ہی عوام کو بتا دیتی ہیں!