آصف علی زرداری صاحب کیلئے باعزت راستہ تو یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو خود عدالت کے آگے پیش کر دیں اور اپنے خلاف سارے مقدمات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اگر وہ واقعی بے گناہ ہیں اور حکومت بھی ان کی اپنی ہی ہے تو پھر خوف کس نا انصافی کا، یہی مخلصانہ مشورہ انکو میاں نواز شریف صاحب نے بھی دیا ہے لیکن بدقسمتی سے مسائل اتنے گھمبیر ہیں کہ صدر مملکت یہ خطرہ مول لینے کو تیار نہیںاور دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ پاکستانی قوم کی ایک بہت بڑی اکثریت یہ ماننے کو بالکل تیار نہیں کہ ان سارے مقدمات میں سے ایک بھی سچا نہیں اور یہ تاثر اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا‘ جب تک سویٹزلینڈ کے بینکوں میں پڑے ہوئے کروڑوں ڈالرز اور سرے میں موجود شاندار محل اور دوبئی، امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور سپین کی وہ جائیدادیں جن کی لسٹیں آئے دن انٹر نیٹ پر پوری دنیا میں بار بار دکھائی جاتی ہیں، موجود ہیںکچھ لوگوں ک ایہ ایمان ہے کرپشن کی داستانیں صرف افسانے نہیں بلکہ زمینی حقائق ہیں اس لیے عدالتیں ان الزامات پر اپنی مہر ثبت کریں یا نہ کریں ملوث افرادکو قوم سے صفائی کی چٹ ملنا مشکل ہے‘ یہ بات ٹھیک ہے کہ کسی بھی فرد کے اپاہج ہونے کی سرکاری تصدیق تو ڈاکٹری معائینے کے بعد ہی ہو سکتی ہے لیکن سامنے کھڑے ہوئے ایک ٹانگ سے عاری لنگڑے کیلئے میڈیکل سرٹیفیکیٹ کا ہونا یا نہ ہونا بے معنی ہے۔ جناب شفقت محمود جو پیپلز پارٹی کے سابقہ سینٹر اور بے نظیر بھٹو کے بہت قریبی ساتھیوں میں سے تھے ، نے حال ہی میں اپنے کالم میں لکھا ہے:’’زرداری بہت سارے کرپشن کے الزامات سے خواہ بری ہوں یا ان کو سزا مل جائے… لیکن کیا ان کے قریبی ساتھیوں، دوستوں، مداحوں ، سیاسی اور میڈیا کی قابل ذکر ہستیوں اور عام لوگوں میں سے کسی کو بھی اس بات پر ذرہ برابر شک ہے کہ اتنا زیادہ مال و دولت اور جائیداد ان کے پاس کہاں سے آئی ‘‘
کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ NRO کے مسئلے کو مہران بینک کے مقدمے سے پہلے کھولنا کیوں ضروری تھا اس کا جواب کچھ لوگ یوں دیتے ہیں کہ ایک چلتی گاڑی کی باڈی پر اگرچند بہت بڑے اور بھدے ڈینٹ پڑے ہوں اور ساتھ ہی سٹیرنگ پر بیٹھے شخص کے ڈرائیونگ لائسنس کے جعلی ہونے کی خبربھی ہو تو پھر ظاہر ہے پہلی ترجیح ہر حالت میں باڈی کا ڈینٹ نکلوانے کی بجائے یہ یقین کرنا ہو گا کہ گاڑی واقعی ہی ایک ایسے پیشہ ور ائر دیانت دار ڈرائیور کے ہاتھ مین ہے جو یسے ہر طرح کے حادثوں سے محفوظ رکھے ۔بد قسمتی سے این آر او زدہ لوگوں میں سے کچھ بہت ہی اہم حکومتی عہدوں پر بیٹھے ہیں اور ان کی ایماندار ار اہلیت پر لوگوں کو شک ہے جو دور ہونا چاہیے۔ اس کے بعد مہران بینک اور قرضے ہڑپ کرنے والے مقدمات کو بھی نہ صرف فوراً سنا جائے بلکہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ میں اٹھائے جانے والے ہر مسئلے کا تجزیہ بھی اس لیے ضروری ہے تا کہ ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو مستقبل میں کوئی دہرانے کی جرات نہ کر سکے۔
قارئین 2007 میں جب صدر پرویز مشرف کے آرٹیکل 248 کے تحت استثناء کا مسئلہ سامنے آیا تو 20 جولائی 2007 کو 13 ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی صدارت میں ایک بہت واضح متفقہ فیصلہ ان الفاظ میں دیا تھا:
\\\"Since neither the constitution nor any law can possibly authorize him (President) to commit a criminal act or do any thing which is contrary to law, the immunity can not extend to illegal or un-constitutional act.
ترجمہ: چونکہ نہ آئین اور نہ کوئی قانون صدر کو کوئی جرم سرزد کرنے یا کسی قانون کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت دیتاہے اس لیے استثناء غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کیلئے نہیں دیا جا سکتا۔
کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ NRO کے مسئلے کو مہران بینک کے مقدمے سے پہلے کھولنا کیوں ضروری تھا اس کا جواب کچھ لوگ یوں دیتے ہیں کہ ایک چلتی گاڑی کی باڈی پر اگرچند بہت بڑے اور بھدے ڈینٹ پڑے ہوں اور ساتھ ہی سٹیرنگ پر بیٹھے شخص کے ڈرائیونگ لائسنس کے جعلی ہونے کی خبربھی ہو تو پھر ظاہر ہے پہلی ترجیح ہر حالت میں باڈی کا ڈینٹ نکلوانے کی بجائے یہ یقین کرنا ہو گا کہ گاڑی واقعی ہی ایک ایسے پیشہ ور ائر دیانت دار ڈرائیور کے ہاتھ مین ہے جو یسے ہر طرح کے حادثوں سے محفوظ رکھے ۔بد قسمتی سے این آر او زدہ لوگوں میں سے کچھ بہت ہی اہم حکومتی عہدوں پر بیٹھے ہیں اور ان کی ایماندار ار اہلیت پر لوگوں کو شک ہے جو دور ہونا چاہیے۔ اس کے بعد مہران بینک اور قرضے ہڑپ کرنے والے مقدمات کو بھی نہ صرف فوراً سنا جائے بلکہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ میں اٹھائے جانے والے ہر مسئلے کا تجزیہ بھی اس لیے ضروری ہے تا کہ ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو مستقبل میں کوئی دہرانے کی جرات نہ کر سکے۔
قارئین 2007 میں جب صدر پرویز مشرف کے آرٹیکل 248 کے تحت استثناء کا مسئلہ سامنے آیا تو 20 جولائی 2007 کو 13 ججز پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے جسٹس خلیل الرحمن رمدے کی صدارت میں ایک بہت واضح متفقہ فیصلہ ان الفاظ میں دیا تھا:
\\\"Since neither the constitution nor any law can possibly authorize him (President) to commit a criminal act or do any thing which is contrary to law, the immunity can not extend to illegal or un-constitutional act.
ترجمہ: چونکہ نہ آئین اور نہ کوئی قانون صدر کو کوئی جرم سرزد کرنے یا کسی قانون کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت دیتاہے اس لیے استثناء غیر قانونی اور غیر آئینی اقدامات کیلئے نہیں دیا جا سکتا۔