اچھی خبریں اب نہیں آتیں‘ وہ پرندے جو ایسی خبریں لا سکتے تھے وہ کب کے یہاں سے ہجرت کر گئے ہیں۔ مسافر پرندے تھکے ہارے اپنا آشیانے ڈھونڈتے ڈھونڈتے بھٹک گئے ہیں‘ مگر ابھی ابھی ا یک زخمی پرندے نے سرگوشی کی ہے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ وہ ایک آزاد شہری ہیں انہیں آزادانہ نقل و حرکت کا حق ہے۔ انہیں سارے الزمات سے بری کر دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ جنرل مشرف اور صدر بش کے لئے شرمناک سزا کی طرح ہے۔ عدالت کو اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہئے کہ انہیں اب تک اس اذیت اور ذلت سے کیوں دوچار رکھا گیا جو پوری قوم کے لئے شرم کا مقام ہے۔ اس مقام پر کھڑے ہوئے ہم اس خوشخبری کا جشن بھی پوری طرح نہیں منا سکتے۔ میں پچھلی باتوں کا ذکر کر کے ماحول کو ناآسودہ اور آلودہ نہیں کرنا چاہتا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کیلئے میرا دل ممنونیت سے بھر گیا ہے۔ یہ پی سی او عدالتیں ہیں تو اس فیصلے کے بعد تنقید کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ جو آئینی عدالتیں تھیں انہوں نے اس طرح کے فیصلے کی جرات کیوں نہ کی تھی۔ اس کے بعد یہ امید ہے کہ اب نواز شریف کے لئے اچھا فیصلہ آئے گا۔ وہ ہر طرح سے اہل آدمی ہیں۔ ایک بڑے لیڈر ہیں۔ جذبات میں آکے وہ ان عدالتوں کے لئے جو کچھ کہتے رہے ہیں اس کے لئے ججوں نے برا نہیں منایا۔ یہ اچھی بات ہے میں سمجھتا ہوں کہ بہرحال جو شخص جج کی مسند پر بیٹھا ہے۔ وہ پوری عزت کے قابل ہے۔ اسے کسی غصے کا نشانہ بنانا اس کی ذات کے خلاف نہیں ہوتا۔ یہ عدالت ہے جو احترام کی مستحق ہے۔ ہمارے ملک میں غیر جمہوری قوتیں راج کرتی رہیں بلکہ ملک کو تاراج کرتی رہیں۔ اس میں عدالت کا کردار بھی شامل ہے تو سیاست بھی شریک ہے۔ سیاستدان جرنیلوں کے دست و بازو بنے رہے بلکہ آمر انہیں اپنے غلاموں کی طرح استعمال کرتے رہے۔ اس صورتحال میں کوئی سیاستدان مستثنٰی نہیں۔ اب یہ رویہ بھی ختم ہونا چاہئے کہ اب کچھ سیاستدانوں کو اس حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جائے۔ ڈاکٹر قدیر کو امریکی سیاست کی پاکستان دشمنی کی بھینٹ چڑھایا گیا تھا لیکن اب عدالت نے اس کا ازالہ کر دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ عدالت نواز شریف کے حق میں فیصلہ دے گی۔ نواز شریف جن عدالتوں کو نہیں مانتے ان کے اس فیصلے کو مان لیں گے۔ کسی بھی معاملے میں آپس کے تصادم سے کوئی راہ ہموار نہیں ہوتی ماحول کو خوشگوار کرنے کی ضرورت ہے۔
نواز شریف اپنے حق میں فیصلہ آنے کے بعد وکلاء تحریک کے لئے کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ لانگ مارچ اور دھرنے کا کیا بنے گا۔ میں اس پر پھر بات کروں گا۔ البتہ شیخ رشید کی یہ بات سن لیں کہ اس نے لانگ مارچ اور دھرنے کے سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر اس لانگ مارچ میں نواز شریف بنفس نفیس اور بذات خود شریک ہونگے تو نتائج اور ہونگے۔ ان کے بغیر معاملہ مختلف ہو گا۔ میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے لئے دل و جان سے حاضر رہا ہوں اور حاضر ہوں مگر جنرل پرویز مشرف کے حق میں ا ن کا فیصلہ بھی موجود ہے اور یہ فیصلہ نواز شریف کی دو تہائی اکثریت والی حکومت توڑنے کے بعد دیا گیا۔ اس اقرار کے بعد اسی جرنیل کے سامنے ایک انکار کر کے وہ پوری قوم کے محبوب ہوئے۔ اب وہ آزاد عدلیہ کی علامت ہیں۔ ججوں نے اب ڈاکٹر قدیر کے لئے جرات مندانہ اور منصفانہ فیصلہ دیا ہے عدالت نے امریکی دباؤ کا بھی سامنا کیا ہے۔ حکمران کبھی ایسا نہیں کر سکے۔ ہم انہیں سلام کرتے ہیں۔ حکمران اور سیاستدان تو ڈاکٹر قدیر کے لئے کچھ نہ کر سکے یہ کام ججوں نے کر دکھایا ہے۔ ججوں کے لئے سیاسی زبان میں بات نہیں کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر قدیر کے فیصلے سے عدالتوں کے لئے یہ امید پھر زندہ ہو گئی ہے کہ اس معاشرے میں قانون کی طاقت بحال ہو گی۔ طاقت کا قانون چلانے والے اپنا سا منہ لے کے رہ جائیں گے۔
صدر زرداری گھبرائیں نہیں اور نہ ڈریں۔ وہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کریں۔ وہ زرداری کے خلاف کوئی مقدمہ سنیں گے ہی نہیں۔ انہوں نے جنرل مشرف کا اہلیت کیس سننے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ بھی کوئی کم انکار نہ تھا۔ چیف جسٹس ڈوگر ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اس طرح کوئی پیچیدگی پیدا نہ ہو گی۔ 3 نومبر سے پہلے سب جج بحال ہونگے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو جسٹس رمدے کے فل بینچ عدالتی فیصلے کی صورت میں بحال کیا گیا۔ یہ معرکہ آرائی بھی ججوں نے کی۔ ڈاکٹر قدیر نے سب کو معاف کر دیا ہے تو سیاستدان بھی یہ کارنامہ کر دکھائیں۔ ڈاکٹر قدیر کے لئے میڈیا کا کردار بہت قابل تحسین ہے۔ بالخصوص نوائے وقت اور وقت نیوز کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ مجید نظامی نے ہمیشہ کی طرح اس حوالے سے بھی صحافت کو سربلند کر دیا ہے۔ محسن پاکستان فاؤنڈیشن اور اس کے صدر عبداللہ گل کا ذکر بھی ضروری ہے۔
نواز شریف اپنے حق میں فیصلہ آنے کے بعد وکلاء تحریک کے لئے کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ لانگ مارچ اور دھرنے کا کیا بنے گا۔ میں اس پر پھر بات کروں گا۔ البتہ شیخ رشید کی یہ بات سن لیں کہ اس نے لانگ مارچ اور دھرنے کے سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر اس لانگ مارچ میں نواز شریف بنفس نفیس اور بذات خود شریک ہونگے تو نتائج اور ہونگے۔ ان کے بغیر معاملہ مختلف ہو گا۔ میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے لئے دل و جان سے حاضر رہا ہوں اور حاضر ہوں مگر جنرل پرویز مشرف کے حق میں ا ن کا فیصلہ بھی موجود ہے اور یہ فیصلہ نواز شریف کی دو تہائی اکثریت والی حکومت توڑنے کے بعد دیا گیا۔ اس اقرار کے بعد اسی جرنیل کے سامنے ایک انکار کر کے وہ پوری قوم کے محبوب ہوئے۔ اب وہ آزاد عدلیہ کی علامت ہیں۔ ججوں نے اب ڈاکٹر قدیر کے لئے جرات مندانہ اور منصفانہ فیصلہ دیا ہے عدالت نے امریکی دباؤ کا بھی سامنا کیا ہے۔ حکمران کبھی ایسا نہیں کر سکے۔ ہم انہیں سلام کرتے ہیں۔ حکمران اور سیاستدان تو ڈاکٹر قدیر کے لئے کچھ نہ کر سکے یہ کام ججوں نے کر دکھایا ہے۔ ججوں کے لئے سیاسی زبان میں بات نہیں کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر قدیر کے فیصلے سے عدالتوں کے لئے یہ امید پھر زندہ ہو گئی ہے کہ اس معاشرے میں قانون کی طاقت بحال ہو گی۔ طاقت کا قانون چلانے والے اپنا سا منہ لے کے رہ جائیں گے۔
صدر زرداری گھبرائیں نہیں اور نہ ڈریں۔ وہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کریں۔ وہ زرداری کے خلاف کوئی مقدمہ سنیں گے ہی نہیں۔ انہوں نے جنرل مشرف کا اہلیت کیس سننے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ بھی کوئی کم انکار نہ تھا۔ چیف جسٹس ڈوگر ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اس طرح کوئی پیچیدگی پیدا نہ ہو گی۔ 3 نومبر سے پہلے سب جج بحال ہونگے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو جسٹس رمدے کے فل بینچ عدالتی فیصلے کی صورت میں بحال کیا گیا۔ یہ معرکہ آرائی بھی ججوں نے کی۔ ڈاکٹر قدیر نے سب کو معاف کر دیا ہے تو سیاستدان بھی یہ کارنامہ کر دکھائیں۔ ڈاکٹر قدیر کے لئے میڈیا کا کردار بہت قابل تحسین ہے۔ بالخصوص نوائے وقت اور وقت نیوز کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ مجید نظامی نے ہمیشہ کی طرح اس حوالے سے بھی صحافت کو سربلند کر دیا ہے۔ محسن پاکستان فاؤنڈیشن اور اس کے صدر عبداللہ گل کا ذکر بھی ضروری ہے۔