لنگڑا مارشل لا

Dec 07, 2024

فضل حسین اعوان....شفق

تب ترکی میں عوام اب جنوبی کوریا میں پارلیمنٹ نے مارشل لاءکو بیرکوں میں دھکیل دیا۔ ترکی میں طیب اردگان کے اقتدار کو لپٹنے کے لیے تہیہ طوفان کیے ہوئے جرنیل اب جیل کی ہوا پھانک اور سلاخوں کے باہر جھانک رہے ہیں۔ ٹیک اوور کا فیصلہ چند بڑے پائے کے جرنیلوں کا تھا۔عوام کے دل سے فوج بطور ادارہ اتر گئی۔ جنوبی کوریا میں ادھر مارشل لاءلگا ادھر امریکا نے تشویش ظاہر کی تو مارشل لاءکسی سٹور کے شٹر کی طرح اٹھتاچلا گیا۔ اس مارشل لاءکو عجیب کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ کسی فوجی جرنیل نے اپنے تسلط کے لیے نہیں لگایا۔ جنوبی کوریا میں صدر یون سک یول نے اپوزیشن سے تنگ آ کر مارشل لاءلگا دیا۔ اپوزیشن تگڑی تھی اور نڈربھی نکل جس نے انگڑائی لی تو صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی ہو گئی۔
احوال کچھ یوں ہے کہ 2022ءمیں یون سک یول کو صدر چنا گیا تھا صدر پانچ سال کے لیے صرف ایک ہی ٹرم کے لیے منتخب ہو سکتا ہے۔رواں سال اپریل میں الیکشن ہوئے اس میں ان کی مخالف پارٹی نے 300 میں سے 170 نشستیں حاصل کر لیں۔جنوبی کوریا میں ایک ہی ایوان ہے، سینیٹ نہیں ہے۔ قومی اسمبلی کی مدت چار سال کی ہے۔ صدر کے لیے مخالف پارٹی کی اکثریت کے باعث قانون سازی میں مشکلات پیدا ہونے لگیں۔ اپوزیشن کو راہ راست پہ لانے کی ہر کوشش کی گئی مگر ناکامی کے بعد صدر نے مارشل لاءنافذ کر کے اپوزیشن کو مزید برانگیختہ کر دیا۔مارشل لاءکے نفاذ کے بعدصدر یون سک یول نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا، اپوزیشن کی ریاست مخالف سرگرمیوں کے باعث مارشل لاءنافذ کیا۔ اپوزیشن پارلیمنٹ پر قابض تھی۔ شمالی کوریا سے ہمدرد رکھتی ہے۔پارلیمنٹ کے دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ پولیس نے ارکان کا داخلہ روک دیا ہے۔ادھر ان کی تقریر ختم ہوتی ہے ادھر ارکان جھڑپوں کے بعد پولیس کاحصار کو توڑتے ہوئے پارلیمنٹ میں داخل ہو گئے اور باقاعدہ اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔پارلیمنٹ نے مارشل لاءختم کرنے کی قرارداد منظور کر لی۔ اجلاس میں کل 300 میں سے 190 ارکان موجود تھے جنھوں نے مارشل لاءختم کرنے کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہونے کے بعد فوج کے خصوصی دستے بھی ایوان خالی کروانے کے لیے پارلیمنٹ میں داخل ہو گئے تھے۔ پارلیمنٹیرین سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار تھے۔ دارالحکومت سیول میں سڑکوں پر نکل کرعوام کی جانب سے بھی احتجاج کیا۔ ادھر امریکا نے بھی انکھیں دکھائیں۔ اس پر محض چھے گھنٹے میں صدر نے گھٹنے ٹیک دیے اور مارشل لاءاٹھانے کا اعلان کر دیا۔
اس کے بعد عوام اور اپوزیشن مزید بپھر گئے صدرکے استعفے کا مطالبہ ہونے لگا۔ وزیر دفاع کم یون ہیون جو مارشل لاءکے نفاذ میں آگے آگے تھے وہ مستعفی ہو چکے ہیں۔ آرمی چیف پارک آن سو نے ماشل لاءکی کوشش کے معاملے پر استعفیٰ دینے کی پیشکش کی ہے، پارک جنوبی کوریا کے ماشل لاءایڈمنسٹریٹر تھے انھوں نے اپارلیمنٹ کو بتایا کہ ان کا صدر کے مارشل لاءنافذ کرنے کے اعلان سے حکم ماننے کی حد تک معمولی سا تعلق تھا۔صدر یول کے خلاف آج 7 دسمبر کواسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد آرہی ہے گویا ان کا جانا ٹھہر گیا ہے۔قرارداد پیش ہونے سے قبل ہو سکتا ہے وہ استعفیٰ دے دیں یا پھر اپنے بے آبرو ہو کر نکلنے کا انتظار فرمائیں۔
پاکستانیوں کے لیے ایسے مارشل لاءکا لگنا تعجب خیز نہیں، البتہ چٹکی بجاتے اس کے سہم کر اور لرز کر اٹھ جانا حیران کن ہے۔ ہمارے ہاں لگ کر نظر آنے اور نظر نہ آنے والے مارشل لاءدہائی سے زیادہ عرصے تک طویل ہوتے رہے ہیں۔جنوبی کوریا میں اِدھر مارشل لاءلگا ادھر اٹھا یہ حیرانی ہے۔ صدر کی طرف سے مارشل لاءلگا دینا تعجب خیز اس لیے نہیں کہ ہمارے وطن میں پہلا مکمل مارشل لاءصدر سکندر مرزا نے لگا کر اپوزیشن کوکارنر کر دیا تھا۔ سکندر مرزا بھی اقتدار کو بلا شرکت غیرے انجوائے کرنے ہی لگے کہ تھے کہ باقی کے ثمرات کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان نے سمیٹے جو ذوالفقار علی بھٹو کے منہ بولے ڈیڈی اور عمر ایوب خان کے سگے دادا جان تھے۔ 
جو لوگ عوامی مینڈیٹ کے ذریعے اقتدار کے زینے پر قدم رکھنے سے قاصر رہتے ہیں جنھیں اقتدار میں آنے کا ٹھرک بھی ہوتا ہے۔ ان کو آسان راستوں کی تلاش رہتی ہے۔ ان کے لیے مارشل لاءثمرآور ہوتا ہے۔ مارشل لگنے سے پہلے ہی ان کی شیروانیاں سل جاتی ہیں۔ یہ مخلوق مارشل کے حالات پیدا کرنے کے لیے سر دھڑ کے مصداق تخریب و ترغیب کی بازی لگا دیتے ہیں۔ آج ہمارے ہاں مارشل لاءکی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ اسے پکارنے والے اسی قبیل کے لوگ ہیں جن کے بارے میں جنرل ضیاءالحق نے جب وہ اقتدار کے ہمالہ پر تھے۔ جہاں سے نیچے چلتے پھرتے انسان حشرات نظر آتے ہیں۔ ضیاءالحق نے کہا تھا، میں اشارہ کروں تو سیاستدان دم ہلاتے چلے آئیں گے۔ویسے جہاں تک دم ہلانے کی بات ہے ایک جنرل یحییٰ خان ہوا کرتے تھے دیکھنے والوں نے ان کو جنرل رانی کے آگے پیچھے دم ہلاتے دیکھا تھا۔جنرل ضیاءالحق اسلامی ذہن کے جرنیل تھے۔ عبادت گزار تھے، ملک و قوم کی سلامتی کی دعائیں ہمہ وقت مانگا کرتے تھے۔ ان کی کوئی اور دعا قبول ہوئی یا نہیں ہوئی، یہ دعا غالباً قبول ہو گئی،’میری عمر نواز شریف کو لگا دے‘۔
پاکستان میں سردست نظر آنے والے مارشل لا ءکے نفاذ کا کوئی امکان نہیں۔ مارشل لاءکے راستے جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنے فیصلے میں مشکل بنا دیے تھے جبکہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ نے خصوصی عدالت کی سربراہی کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا سنا کر سیل بند کر دیے۔ وقار سیٹھ کے ہر فیصلے کی تائید نہیں کی جا سکتی۔ وہ شاید پاک فوج کے خلاف پیدائشی اور نمائشی مائنڈ سیٹ رکھتے تھے۔انھوں نے ایسے سیکڑوں قیدیوں کی لوئر کورٹس کی طرف سے دی گئیں سزائیں کالعدم قرار دیدیں جو پکے دہشت گرد تھے۔ان کو پاک فوج نے آپریشنز کے دوران گرفتار کیا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کو دی گئی سزا سمیت اس خصوصی عدالت کو لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی بنچ نے کالعدم قرار دے دیا تھا مگر یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں جانے کے بعد کالعدم ہوگیا۔ آج جنرل پرویز مشرف کو پھانسی کی سزا کا قانونی حکم برقرار ہے۔ جو طالع آزماو¿ں کو مارشل لاءکے نفاذ کی مہم جوئی سے باز رکھنے کے لیے کافی ہے۔
آج عدلیہ مضبوط ہے کمپرومائز ہے یا کمزور ہے؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کلی انحصار حالات، وقت، ایام اور گردش ایام پر ہوتا ہے۔ پاکستان میں حالات بدلتے، اقتدار سے جیل میں جانے، جلا وطنی سے سیدھے قصر الحمرا میں پہنچنے میں دم بھر ہی لگتاہے۔ اس سارے منظر نامے کے پیش نظر دور تک نظر آنے والا تگڑا مارشل لاءتو درکنا سہما ، لرزتا، لڑکھڑاتا حتیٰ کہ لنگڑامارشل لاءبھی دور دور تک نظر نہیں آتا۔

مزیدخبریں