وقت کی نوعیت اور ماہیت ایک معمہ ہے۔ دسمبر سال کا آخری مہینہ ،ماضی کے احتساب اور مستقبل کے امکانات پر غور و خوض کی جانب مائل کرتا ہے۔ سال کے اختتام پر انفرادی حیثیت میں اکثر افراد گزشتہ سال کاجائزہ لیتے ہیں، غلطیوں سے سبق حاصل کرکے ان کو آئندہ نہ دہرانے کا تہیہ کیا جاتا ہے اورمستقبل کے لیے بھی ایک کارآمد حکمتِ عملی وضع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ابتدائی انسانی گروہ یعنی خاندان سے لے کر عالمی برادر ی کے رکن کی حیثیت سے ایک عام انسان کا دنیا پر اثر محدود ہے مگر اطراف کے حالات سے متاثر ہونا لازمی امر ہے۔ عالمی سطح پر2024ءکامنظر نامہ متغیر عالمی توازن کا غماز رہا۔ سیاست اور معیشت میں پیچیدگی اور عدم استحکام پایا گیا۔ روایتی عالمی طاقتوں کی گرفت کمزور اور حیثیت متزلزل ہوتی نظر آئی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں بے تحاشا پیش رفت، خاص طور پر جنریٹیو اے آئی (Generative AI) کا مختلف شعبوں میں عملی اطلاق اور آسان اور وسیع پیمانے پر دستیابی کی وجہ سے 2024ءکو ٹیکنالوجی کی تاریخ کے حوالے یادگار سال قرار دیا جائے گا۔
اس سال عالمی اقتصادی نظام پر دباو¿ سے تقریباً دنیا بھر کی معیشت عدم استحکام کا شکار رہی ہے۔ پاکستان اور کئی ترقی پذیر ممالک اپنے محدود وسائل اور کمزور انفراسٹرکچر کی وجہ سے شدید مالیاتی بحران کی زد میں رہے۔ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں قیمتوں کا اتار چڑھاو¿ اور توانائی اور خوراک کی درآمد کے سلسلے میں ان ممالک پر انحصار کرنے والے خطے فراہمی میں رکاوٹ کی وجہ سے شدید مسائل میں گھرے رہے۔ دنیا بھر کے پچاس سے زیادہ ممالک میں انتخابات ہوئے اور لوگوں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ بڑی طاقتوں کے انتخابی نتائج ترقی پذیر ممالک کے لیے کچھ مواقع اور کئی چیلنجز لے کر آتے ہیں کیونکہ ہر نئی حکومت کی خارجہ پالیسی اور عالمی منظرنامے کے بارے میں نقطہ نظر اور ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ ان مفادات پر مبنی ترجیحات کا عکس فلسطین کے معاملے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ نومبر2024ءمیں اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے لیے سنگین جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی پامالی پر آئی سی سی نے وارنٹ جاری کیے گئے جن پر عمل درآمد نہ ہو سکا اورفلسطینیوں کی نسل کشی آج بھی جاری ہے۔ ہزاروں فلسطینی سفاکی سے ختم کر دیے گئے جن میں اکثریت خو اتین اور بچوں پر مشتمل ہے اور اس درندگی پر عالمی خاموشی اور لاچاری ناقابل بیان ہے۔ قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع اور بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی بھی عالمی ضمیر جھنجھوڑنے میں ناکام رہی ہے۔ ماحولیاتی لحاظ سے بھی دنیا بہت سے چیلنجز سے نبرد آزما نظر آئی۔ عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) کے مطابق، 2024ءدرجہ حرارت کے لحاظ سے دنیا کا گرم ترین سال سمجھا جا سکتا ہے۔ دنیا کے کئی حصے قدرتی آفات اور خشک سالی کے خطرات کے زیرِ اثر رہے۔ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں اور اس سال یہ تبدیلیاں اور ان کے خطرناک اثرات پاکستان میں واضح طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔
اب ان پہلوو¿ں کا پاکستان کے تناظر میں جائزہ لیں تو ہر میدان میں پریشان کن اور غیر یقینی کیفیت غالب ہے۔ سال کی ابتدا سے ہی اقتصادی شرح نمو میں کمی کے کئی اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے۔ پاکستانی عوام نے تاریخ کی بدترین مہنگائی کا سامنا کیا اور معاملات تاحال مایوس کن ہیں۔ یہ سال ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر لے کر آیا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کئی بے گناہ قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ موسیٰ خیل ، پنجگور اور کوئٹہ ٹرین اور دیگر کئی بڑے واقعات رونما ہوئے جن میں سکیورٹی اہلکار اور عام افراد نشانہ بنے۔ خیبر پختونخوا میں شمالی اور جنوبی وزیرستان ، ڈیرہ اسماعیل خان اور ضلع کرم میں سینکڑوں انسانوں کا خون ہر دردمند دل کے لیے باعث تکلیف ہے۔ فروری 2024ءمیں انتخابات کے بعد سیاسی جماعتوں کے شدید اختلافات سامنے آئے اور صورت حال متنازعہ رہی۔ آئندہ ملک کی باگ دوڑ نوجوانوں کے ہاتھ ہوگی مگر ان کو انقلاب کی آڑ میں انتشار پھیلانا ،دشنام طرازی اور الزام تراشی کی تربیت مل رہی ہے۔ وہ یہ سیکھ رہے ہیں کہ کیسے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ آئے دن فکر و احساس سے مبرا نام نہاد انقلابی جتھا دارالحکومت پر چڑھائی کر دیتا ہے جس کا واضح مقصد فقط اپنے مفادات کی خاطرعوام کو تعصب اور جنونیت کے مرض میں مبتلا کرنا ہے۔
انتہا پسندی مذہبی ہو یا سیاسی ملک کے لیے زہرِ قاتل ہے اوران تمام حالات میں حکومت کے پاس بھی سب کچھ بند کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں کہاں پہنچ گئی اور ہم موجود مواقع بھی ضائع کرنے پر تلے ہیں۔ انٹرنیٹ اور راستوں کی بندش عام آدمی کے لیے کس قدر مشکل حالات پیدا کر سکتی ہے اس کا ادراک شاید ارباب اختیار نہیں کر پارہے۔ ملک کامستقبل نوجوانوں کی بہترین تعلیم و تربیت میں پوشیدہ ہے۔ کبھی سیاسی اور کبھی ماحولیاتی مسائل کی وجہ تعلیمی ادروں میں تواتر سے چھٹیاں کی جا رہی ہیں ۔نظام تعلیم کی خستہ حالی سب کے سامنے ہے اس پر آئے دن تعلیمی ادروں بندش معیارِتعلیم کو مزید متاثر کر رہی ہے۔ سال کا بدلنا ایک مسلسل عمل ہے، اصل نکتہ ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کے اہداف مقرر کرنا خود غرضی اور منافقت کے بھنور سے نکل کر اجتماعی سوچ اپنانا ہے جو ملک و قوم کے بہتر مفاد میں ہے۔ امید ہے اور آئندہ بھی رکھیں گے ورنہ فقط سال بدلنے سے کیا بدلا ہے۔ بقول ساحر لدھیانوی:
کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم
2024ءکا منظر نامہ
Dec 07, 2024