پارلیمان کا فعال رہنا کیوں ضروری ہے؟

Dec 07, 2024

وزیر احمد جوگیزئی

سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com 
سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی

پاکستان کو اس وقت غیر معمولی حالات کا سامنا ہے ،اندرونی طور پر تقسیم بڑھتی چلی جارہی ہے اور شدید عدم استحکام معاشی طور پر بھی ملک کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔عدم استحکام کم ہونے کی بجائے بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ صوبائی تعصبات بھی بڑھنے لگے ہیں ،یہ تمام صورتحال انتہائی خطرناک ہے اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہی ہے لیکن اس صورتحال سے نکلنے کا کو ئی راستہ دیکھائی نہیں دے رہا ہے دونوں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے دانش مندانہ فیصلے نہیں کیے جارہے ہیں ،جس کا نتیجہ عوام بھگت رہے ہیں ،ہماری یہ اندرونی ناچاقی بیرونی قوتوں کو بھی کھلی مداخلت کی دعوت دے رہی ہے۔اس وقت ملک کی بڑی بد قسمتی ہے کہ نوابزادہ نصر اللہ خان کی صورت میں ملک کے پاس کوئی قد آور شخصیت موجود نہیں ہے ،جو کہ ماضی میں ایسے حالات میں پل کا کردار ادا کرتی رہی ہے ،اس وجہ سے حالات مزید گھمبیر ہو تے چلے جارہے ہیں۔ایسی شخصیت کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی جس کی شہرت ،پر محنت پر اور سچائی پر ہر کسی کو یقین ہو۔لگتا ایسا ہے کہ سیاست نا بالغان کے ہاتھ میں چلی گئی ہے۔ایک غیر سنجیدہ اور غیر ضروری رویہ دیکھائی دیتا ہے اور حکومت بھی سیاسی طور پر بہت میچور فیصلے نہیں کررہی ہے۔لیکن موجودہ صورتحال میں بھی ایسی دو شخصیات موجود ہیں جو کہ نہ صرف سیاسی طور پر فعال بھی ہیں بلکہ ان کے دونوں اطراف روابط بھی ہیں ،یہ ایسے لوگ ہیں جو کہ اچھا سیاسی کردار ادا کرسکتے ہیں ،اور یہاں پر میں بات کر رہا ہوں مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کی ،یہ دونوں ہی شخصیات ایسی ہیں جو کہ نہ صرف سیاسی طور پر نہایت ہی قابل احترام ہیں بلکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب ہی اچھے روابط بھی رکھتے ہیں۔جو اس وقت جنگ گرفتہ سیاسی جماعتیں ہیں ،جن میں ایک طرف مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پا رٹی ہیں تو دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف ہے ،جو کہ سیاسی میدان میں زور آزمائی میں مصروف ہیں بلکہ اب تو لگتا ہے سیاسی میدان سے بھی بات آگے جارہی ہے۔لڑائی کو مزید بڑھایا جا رہا ہے ،ان سیاسی جماعتوں سے یہی گزارش ہے کہ ہوش کے نا خن لیں ،سیاسی لڑائی یا مخالفت اسمبلیوں میں کی جاتی ہے۔اسی لیے سیاسی سوچ کو جگہ دینے کے لیے ہی اسمبلیاں وجود رکھتی ہیں اور نہ صرف وجود رکھتی ہیں بلکہ اسمبلی میں ہونے والی سپیچ کو بھی قانونی تحفظ دیا گیا ہے اور عدالتوں سے بھی تحفظ حاصل ہے۔سیاسی جنگ لفظی طور پر ہی شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے اکابرین کو اسمبلی فلور پر ہی لڑنی چاہیے۔یہ مہذب طریقہ ہے ،یہی جمہوری طریقہ ہے اور اسی راستے سے اختلافات کا حل نکالا جاسکتا ہے مذاکرات کے ذریعے بات چیت کے ذریعے دوسروں کو اپنی بات منوائیں کچھ ان کی بھی مانیں اور کوئی درمیانہ راستہ نکالا جائے۔یہی جمہوریت کی منشا ہوا کرتی ہے۔جو بھی حل کثرت رائے سے نکل آئے اس پر ہی اتفا کرنا چاہیے۔پارلیمان کا فعال نہ ہونا وسعت نظری کے فقدان کا مظہر ہے ،اور کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ضرورت ہے تو صرف اور صرف ہوش مندی کی ،یہ لوگ جو اسمبلیوں میں لوگ بیٹھے ہیں اور ایک متنازع مینڈیٹ کے ساتھ بیٹھے ہیں ،ان کو بھی وہاں پر کچھ کرنا چاہیے۔26ویں آئینی ترمیم جس طریقے سے ہوئی ہے اس طریقے سے نہیں ہونی چاہیے تھی کوئی بھی آئینی ترمیم مکمل اتفاق رائے کے ساتھ اور یکسوئی کے ساتھ ہونی چاہیے کسی وقتی فائدے یا مفاد کے لیے آئینی ترمیم نہیں کی جانی چاہیے۔جس طریقے سے یہ آئینی ترمیم ہمارے ہاں کی گئی یہ نا قابل قبول ہے اس طرح سے ترمیم نہیں کی جانی چاہیے تھی اور اللہ کرے کہ آگے چل کر یہ ترمیم ناقابل قبول ثابت ہو۔یہ آئینی ترمیم کسی بھی صورت میں کوئی جمہوری عمل ثابت نہیں کرتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں برداشت کا مادہ ہونا چاہیے کہ مخالفت کا جواب اس مخالفت کو برداشت کرتے ہوئے عقل اور فہم سے دیا جائے نہ کہ گلہ پھاڑ کر اور بد کلامی کرکے ،اور اب تو بات اس سے بھی آگے نکل گئی ہے اب تو بات مار دھاڑ تشدد اور گریبان پکڑنے تک چلی گئی ہے جس کی کہ ہر صورت میں حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے …آج کی سیاست میں بیانیہ اور شعبدہ بازی بھی بہت اہم ہو گئی ہے لیکن اس کی سیاست میں اتنی ضرورت نہیں ہے ،جتنی کہ یہ استعمال کی جارہی ہے۔اس کا شائستگی اور طرز جمہوریت سے کو ئی تعلق نہیں ہے ،جمہوریت کے لیے شائستگی ،مخالف کے بیان کو برادشت کرنا بہت ضروری ہے اور پھر اس پر اپنی عقل اور تجربے کی بنیاد پر اس کا جواب دینا ہی جمہوری عمل ہو تا ہے۔سیاست ایک مقدس شعبہ ہے اور عوام کی خدمت کا ذریعہ ہونا چاہیے ،یہ ایک مقدس پیشہ ہے جس کی عزت برقرار رہنی چاہیے سیاست کو دشمنی میں بدلنے کا سلسلہ ختم کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ صرف تباہی کا راستہ ہے جن بھی ممالک نے سیاست میں دشمنی کا راستہ اختیار کیا ہے انھوں نے صرف تباہی ہی دیکھی ہے۔ہمیں جمہوری اقدار کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے ،جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے جمہوری رویے ہونا سب سے ضروری ہے کیونکہ نظام جتنا بھی اچھا کیو ں نہ بنا لیا جائے جب تک اس نظام کو چلانے والے ذہنی طور پر بہتر رویوں کے حامل اور سنجیدہ نہیں ہوں گے نظام نہیں چلایا جاسکے گا۔یہ بات ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

مزیدخبریں