جمعرات 22جمادی الاول 1445ھ،7 دسمبر 2023ء

میری خواہش تھی گورنر سندھ بنوں اسحاق ڈار کو بھی کہا تھا، مفتاح اسماعیل
 ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے، مفتاح صاحب پاکستان کے مسلم لیگ نون کی طرف سے وزیر خزانہ رہے۔ایک نہیں دوبار، جہاں تک فرمائش پہنچانی  مقصود تھی تو اسحاق ڈار کے ذریعے، گورنر سندھ بننے کی حسرت کیوں تھی؟ اس لیے کہ ان کے بھائی عمران اسماعیل کو عمران خان نے پارٹی کا وفادار سمجھ کر گورنر سندھ بنایا تھا۔ اُن دنوں عمران اسماعیل خان صاحب کو اوتار سمجھا کرتے تھے ۔پھر حالات نے پلٹاکھایا تو کراچی کے عمران نے لاہور کے عمران کو سر سے اتار مارا۔ مفتاح ’’شریکے‘‘ میں گورنربننا چاہتے تھے چودھری شجاعت عبوری بہ امر مجبوری وزیراعظم بنائے گئے تھے۔انہوں نے ظفراللہ جمالی اور شوکت عزیز کے مابین پُل بننا تھا، دو تین ماہ پَل دو پَل میں گزر گئے ۔پرویز الہی نے بھی وزیراعظم بننے کی ٹھان لی۔ زرداری صاحب کے پِچھے ہی پڑ گئے۔ ڈپٹی وزیراعظم بن کے ہی دم لیا۔ ڈپٹی اور فل وزیراعظم میں فرق ہے۔’’ وہ کون سے پکے وزیراعظم تھے، عبوری تھے۔‘‘ کہہ کر دل کو بہلا لیا جاتا ہے۔ مفتاح کہتے ہیں۔ میرا انتخاب لڑنے اور کسی جماعت میں شمولیت کا ارادہ نہیں ہے ۔نون لیگ کو چھوڑ چکے ہیں گویا موج دریا سے نکل گئی ہے۔ اگر گورنر بننے کا کوئی چانس تھا تو بھی سر دست معدوم  ہو گیا، تابناک مستقبل سے محروم ہو گیا۔ میاں نواز شریف ان کو گورنر کیوں بناتے؟ وزیر خزانہ بنائے گئے تو عوام مہنگائی کے ہاتھوں باں باں کرنے لگے۔ پٹرول کی قیمت کو آگ لگا دی، جس کا دھواں عوام کے کانوں اور انگارے زبانوں سے نکلتے تھے۔ اسحاق ڈار، جن سے درخواست کی کہ مجھے گورنر لگوا دو، ان کے سر پر وزارت خزانہ کی دستار رکھی گئی بقول شخصے ان کے دور میں جلتی پر پٹرول چھڑک دیا گیا۔ کچھ لوگ کہتے نظر آئے وہی اچھا تھا، بھلے اس کا مُفتا لگا ہوا تھا۔
 ڈرائیونگ لرننگ لائسنس کی  فیس 60 روپے سے بڑھا کر ایک ہزار روپیہ کر دی گئی۔
 آج کل لرننگ لائسنس  کی بڑی مانگ ہے۔ کم عمر ڈرائیوروں کی کمبختی آئی ہوئی ہے۔ پولیس والے بچہ ہونے کے شبہ میں بائیک  اور کارسواروں کو روکتے ہیں۔ پہلے شناختی کارڈ طلب کیا جاتا ہے اس کے بعد ڈرائیونگ لائسنس کا تقاضہ، وارڈن چونکہ پڑھے لکھے ہیں وہ ہر ڈرائیور کو اپنے جیسا سمجھ کر بڑی تمیز سے بلکہ بعض تو جی حضوری کرتے بھی دِکھتے ہیں۔ اگر وارڈن کسی کو بندہ نہیں سمجھتے تو وہ رکشہ ڈرائیوروں کو، چالان کی مقدار اور تعداد میں کمی رہ جائے تو رکشہ ڈرائیوروں پر پوری کرتے ہیں۔ وارڈن بائیک والے کو روکے تو پہلا ایکشن چابی نکال لینا ہوتا ہے۔ جن شہروں میں وارڈن نہیں ہیں وہاں شاہی پولیس دھکا شاہی، سکھاشاہی ،نوکر شاہی اور سفیدو سیاہی سب کچھ کرتی ہے ۔جس کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہ ہو آج کل وہ چالان سے بچ نہیں سکتا۔ اسی لیے ڈرائیونگ لائسنس بنوانے والے بے تاب نظر آتے ہیں۔ مگر ڈرائیونگ لائسنس سے قبل لرننگ بنوانا پڑتا ہے ۔لرننگ کی مانگ میں اضافہ ہوا تو اس محکمے نے بھی اپنی مانگ میں ستارے سجانے کی تدبیر کر لی۔ 60 روپے سے ایک ہزار روپیہ فیس کر دی۔ سرکاری محکمہِ سرکاری بندے، فنڈز موجود مگر کاروباری سوچ۔ 60 روپے ہی فیس کافی ہوتی مزید 940 روپے بڑھا دیے گئے۔ 940 روپے کی 47 روٹیاں آتی ہیں۔ 50 سے تین کم، یہ ایک اس شہری کی روٹی چھینی جا رہی ہے جس کے دماغ پر ذمہ دار شہری ہونے کا بھوت سوار ہوا،بہ امرِ مجبوری ہی سہی۔ اور پھرلرننگ لائسنس بنوانے کے لیے الخدمت سینٹروں کے باہر لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ مٹی گھٹا اور گرد پھانکنی  ہوتی ہے۔سر میں بھی پڑتی ہے۔ زمانہ بدل گیا جدتیں آگئیں۔آن لائن کس کا نام ہے ۔ڈرائیونگ لائسنس کے لیے تو ٹیسٹ دینا پڑتا ہے لرننگ کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں ہے۔ تو پھر آن لائن سروس کیوں نہیں
پٹرول کی قیمت میں کمی کا امکان 
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو ہرچیز کی قیمت کو آگ لگ جاتی ہے۔ کمی ہوتی ہے تو مہنگائی کی آگ بجھتی ہے نہ اٹھا ہوا طوفان نیچے آتا۔ موجودہ سے پیوستہ حکومت کے دوران تو ہتھوڑامار اضافہ ہوتا رہا۔ بیس بیس ، تیس تیس روپے یکمشت اضافہ، شروع میں نگران حکومت نے بھی عوام پر مہنگائی کا ٹینک چڑھا دیاتھا۔ بعدازاں مرہم بھی رکھا۔ 38 روپے فی لٹر کمی کی گئی ۔پچھلے پندھڑواڑے  میں پٹرول کی قیمت برقرار رکھی گئی اب کمی کی امید دلائی جارہی ہے۔لوگ ایسی خبریں سن کر ٹورز وغیرہ شیڈول کر لیتے ہیں مگر عین موقع پر اعلان ہوتا ہے کہ حکومت نے قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے یا کمی کے بجائے اضافہ کر دیا گیا۔ اب لگ تو یہی رہا ہے کہ چھکا لگ رہا ہے۔ عوام کو ایک اور ریلیف ملنے والا ہے۔
 کچھ پمپ مالکان کو پٹرول سستا ہونے پر دردِکولنج ہو جاتا ہے۔ تیل بیچتے تو ہیں مگر مینگنیاں ڈال کر، مہنگا ہو تو  لْڈیاں ڈالتے نظر آتے ہیں۔ پٹرول مہنگا ہوتا ہے تو کچھ حلقے اعلان کرتے ہیں اضافے کو مسترد کرتے ہیں۔ اگلے ہی لمحے مسترد شدہ نرخ پر پٹرول ڈلوا رہے ہوتے ہیں۔مارکیٹ میں ایک خبر پھینکی گئی ہے کہ پٹرولیم کی قیمتوں کا تعین ہفتہ وار کیا جائے گا۔ اس پر ڈیلرز ایسوسی ایشن نے غصے سے کہا ہے کہ ایسا کرنا قابلِ عمل نہیں ہے۔ کبھی پٹرول کی قیمت کا تعین سالانہ بجٹ میں سال بھر کے لئے کیا جاتا تھا۔ پھر ماہانہ ہوا اوراب ہر پندھرواڑے ہوتا ہے۔ حکومت چاہے تو روزانہ کی بنیاد پر بھی کر سکتی ہے۔ ڈیلر ایسوسی ایشن غصہ نہ دکھائے ، بلکہ ایسے فیصلے کرنیوالوں کو کچھ لگائے۔  ویسے پٹرولیم میں بھی ملاوٹ ہو جاتی ہے۔ ایک بھائی صاحب نے تیل کا بزنس گدھا ریڑھی پر ڈرم رکھ کے شروع کیا۔ پہلی ہی دکان پر گیا تو دکاندار نے پوچھ لیا ملاوٹ تو نہیں کی۔ سادہ لوح شخص نے ماچس نکالی، تیلی جلائی اور ٹوٹی سے ٹپکتے قطرے کو دکھا دی۔ پھر کیا تھا بزنس پہلے روز پہلی دکان پر ’’نذرِ عقل‘‘ ہو گیا۔ اس پر بھی اس شخص نے شکر ادا کیا کہ گدھے کو جلتے ڈرم کے دوران نکال کر بچا لیا تھا۔ 
یورپ میں برڈ فلو پھیل گیا، لاکھوں مرغیاں تلف۔
 گوروں کو مرغی کی کیا قدر، انہوں نے تو مرغی کو دال برابر  بھی نہ سمجھا۔ ہم پاکستانیوں سے مرغی کی قدر جانیں۔اب ویسے مرغی کی تھوڑی سی بے قدری ہو گئی ہے ورنہ تو اس کی یہ  اہمیت ہوا کرتی تھی کہ یہ بیمار ہو جائے یا گھر میں کوئی فرد بیمارپڑ جائے تو مرغی پکتی تھی۔ کوئی پہنچے ہوئے  پیر صاحب آتے یا خاص الخاص مہمان  تو گھر کی مرغی دال برابر سمجھی جاتی تھی۔ پاکستان میں بھی مرغی کو بیماری پڑی برڈ فلو ہوا تو مرغیاں یورپیوں کی طرح تلف نہیں کیں۔ البتہ کئی نستعلیق قسم کے لوگوں نے مرغی کھانے سے گریز ضرور کیا مگر عام لوگوں نے اُن دنوں مرغی کھائی اور دبا کے کھائی۔ حکومت کی طرف سے باقاعدہ مرغی کے گوشت کو بے ضرر قرار دیا گیا۔ وفاقی وزیریار محمد  رند کی طرف سے باقاعدہ فوٹو شوٹ کروایا گیا۔جس میں وہ بھنی اور تلی ہوئی مرغی کھاتے دکھائے گئے ۔دلیل یہ دی گئی کہ بیمار مرغی کے گوشت میں مضر عناصر ہوتے ہیں جو آتش جولاں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہنڈیا کے اندر ہی اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔ پاکستانیوں نے اُن دنوں  مرغ خوب اُڑائے البتہ ذبیحہ کے بعد باقیات تناول فرمانے والے جانوروں اور پرندوں میں سے کوئی اِدھر گرا کوئی اُدھر گرا ۔ہم پاکستانیوں بلکہ ایشیائی خصوصی طور پر جنوبی ایشیا کے رہنے والوں کے ہاضمے لکڑ ہضم پتھر ہضم ہیں۔ جو گندم کچھ ممالک صحت کے لیے  ضرررساں قرار دے کر سمندر برد کرنے لگتے ہیں، زمین میں دبانے لگتے ہیں تو لکڑ ہضم پتھر ہضم کے علاقوں کے باسیوں کی حکومتیں اپنے شہریوں کے لیے منگوا لیتی ہیں جو وہ اپنے جانوروں کو بھی نہیں کھلاتے۔ وہ قصاب اور برائلر فروش جو گدھے اور مردہ مرغی بھی فروخت کر دیتے ہیں، یورپ میں لاکھوں تلف ہوتی ہوئی مرغیاں دیکھ کر اُف اور تُف کر رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن