بحیرہ احمر میں حوثیوں کی مداخلت کا مسئلہ سنجیدہ ہو گیا ۔ اب تک وہ دو اسرائیلی جہاز قبضہ میں لے چکے ہیں، دو جہاز علاوہ ازیں تباہ کئے، ایک کو ڈبو دیا۔ مزید دو امریکی جہازوں پر میزائل داغے لیکن علاقے میں پہلے سے موجود امریکی جہازوں نے انہیں راستے میں ہی میں گرا دیا۔ اسرائیل نے کچھ جہاز ا پنی نیوی کے علاقے میں بھیج دئیے ہیں لیکن وہ بہت ناکافی ہیں چنانچہ اس نے نیٹو اور امریکہ سے باضابطہ کہہ دیا ہے کہ ٹھیک ٹھاک تعداد میں جہاز بھیجو تاکہ اس اہم ترین تجارتی رہگذر کو محفوظ رکھا جا سکے لیکن نیٹو نے جواب دیا نہ امریکہ نے۔
وجہ یہ معلوم ہوئی کہ جہاز بھیجے تو دونوں طرف سے میزائل چلیں گے اور پاس ہی سعودی ساحل پر تیل کے پلیٹ فارم وغیرہ ہیں۔ کچھ پٹاخے ادھر چلے گئے تو تیل کی سپلائی یورپ کو جانے والی متاثر ہو گی، یورپ کا معاملہ خاص طور سے خرا ب ہو جائے گا اگرچہ امریکہ کو کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا۔
یہ تو غیر متوقع مسئلہ ہو گیا۔ نہ جائے ’’مارن‘‘ نہ پائے ’’بھاگن‘‘۔ مطلب حوثی جب چاہیں گے ، جس جہاز کو چاہیں گے نشانہ بنا سکیں گے اور زیادہ تر یہ جہاز اسرائیل والوں کے ہوں گے۔ ایک رپورٹ میں ہے کہ حوثیوں نے درمیانی مار والے میزائل بہت بڑی تعداد میں اکٹھے کر رکھے ہیں۔ ایک اسرائیلی اخبار نے لکھا کہ امریکہ برطانیہ اور اسرائیل کے جہاز خطے میں آ جائیں اور وہ حوثیوں پر خوب میزائل برسائیں تب بھی کیا ہو گا۔ سو میں سے ننانوے میزائل بنجر پہاڑوں پر گریں گے اور بس۔
شمالی یمن پر فوجی حملہ کرنا ہو گا لیکن کیسے؟۔ اس کیلئے برّی فوج بھیجنا ہو گی۔ سعودی عرب کو حملے کیلئے آمادہ نہیں کیا جا سکتا۔ سعودی عرب علاقے میں ایک معقول فوجی قوت ہے، بہت اسلحہ ہے، جہاز بھی ہیں، میزائل بھی لیکن حوثیوں کے مقابلے میں سعودی عرب پھر بھی چھوٹی طاقت ہے۔ اوّل تو وہ مانے گا نہیں کہ اس کا حوثیوں سے سیز فائر چل رہا ہے، اور مان بھی گیا تو لڑائی کا سارا عرصہ بارڈر پر ہی بیت جائے گا، اندر جانے کا سوال ہی نہیں ہے۔
____________
غزہ کی جنگ، اگر اسے جنگ کہا جا سکے تو یہ اسرائیلی آرمی کیلئے تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی میں کامیابی جہازوں اور میزائلوں کی وجہ سے ہے، جو برّی فوج بھیجی ہے، وہ بری طرح مار کھا رہی ہے۔ ایک اسرائیلی فوجی نے خودکشی کر لی، یہ کہہ کر کہ غزہ میں انسانی فوجی نہیں ہیں، وہاں بھوت اور جن ہیں، ان سے نہیں لڑ سکتا۔
کل ہی اسرائیلی کابینہ کا جنگی اجلاس ہوا۔ آرمی چیف اندر آنے لگے تو کابینہ کے عملے نے روک لیا۔ اچھی طرح تلاشی لی اور موبائل فون اور ریکارڈنگ ڈیوائس نکال لی۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کو خدشہ ہے (اسرائیلی اخبارات کے مطابق) کہ آرمی چیف اور برّی افواج کے دوسرے کمانڈر جنگ کے مخالف ہیں، جنگ بند کرنا چاہتے ہیں کیونکہ بہت مار پڑ رہی ہے اور چونکہ وہ جنگ کے مخالف ہیں، اس لئے وہ نیتن یاہو کے بھی مخالف ہیں، فون میں باتیں ٹیپ کر کے آرمی چیف نہ جانے اپنے کمانڈروں کو کس زاویے سے سنائیں گے کہ وہ اور خلاف ہو جائیں گے۔
ارے بابا۔ کہیں فوج مارشل لا ہی نہ لگا د ے
____________
عرب سربراہان حکومت تو اسرائیل سے یہ مسلسل مطالبے کر ہی رہے ہیں کہ فلسطینیوں کا صفایا جلد کرو، بمباری تیز کرو لیکن اب اس مہم میں عرب صحافی بھی شامل ہو گئے ہیں۔ ریاض کے مشہور صحافی البارزرواف نے نیتن یاہو کو ایک وڈیو ریکارڈ کرکے بھیجا ہے۔ اس میں رئوف بارز نامی اس فخر عرب نے نیتن یاہو سے اپیل کی ہے کہ جنگ کا دائرہ پھیلائو ، فلسطینی نسل کو نیست و نابود کر دو، ایک بھی زندہ بچنے نہ پائے۔
اس صحافی کا تعلق عرب اشرافیہ سے ہے۔ عرب اشرافیہ کہتی ہے ہم بھی سامی، اسرائیل والے بھی سامی، یہ تیسری قوم (فلسطینی) کہاں سے آئی۔ حالانکہ فلسطینی بھی سامی ہیں اور اس خطے میں اسرائلیوں سے بہت پہلے سے آباد ہیں۔ اسرائیل والے تو حضرت یعقوب علیہ السلام کے زمانے میں یہاں بابل اور کنعان (اردن) وغیرہ سے آباد ہوئے۔ فلسطی (فلسطینیوں کا پرانا نام) پہلے سے موجود، اسرائیل کے سارے جنوبی علاقے میں آباد تھے، بہت پہلے سے۔ ان کی مملکت کا نام فلستیا (یا فلسطیا) تھا اور ان کی اپنی زبان تھی۔ فارو ق اعظمؓ نے جب یروشلم فتح کیا تو ان کے اخلاق کردار اور ان کے ساتھیوں کے طرز عمل کی خبریں سن کر سار فلستی مسلمان ہو گئے اورآہستہ آہستہ اپنی زبان کی جگہ عربی کو اپنا لیا، ان کا مدن بھی عربی ہو گیا لیکن عرب اشرافیہ انہیں عربی ماننے کو تیار نہیں۔ عربی کیا، انہیں انسان بھی نہیں مانتی۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد ان کی سلطنت اسرائیل کا دو حصوں میں بٹوارا ہو گیا۔ کچھ وارثوں نے شمالی اسرائیل کی باگ ڈور سنبھالی، باقیوں نے باقی علاقے کو یہودا (JUDA) کا نام دے کر الگ ریاست بنا لی۔ فلستیا تب بھی متحد تھا۔ اور ان دونوں ریاستوں سے زیادہ مالدار اور خوشحال تھا۔ اور یہ وہی دور تھا جب قرآن پاک کے الفاظ میں بنی اسرائیل پر ذلّت اور مسکنت مسلط کر دی گئی۔ حضرت یسوعؑ تشریف لائے اور یہ ذلّت ختم کرنے کی کوشش کی لیکن یہودی نہ مانے، الٹا انہی کو مصلوب، اپنی حد تک تو، کر ہی دیا۔ جنگ عظیم دوئم تک یہودی قوم دنیا بھر میں مردود رہی۔ ہٹلر نے ہولو کاسٹ کیا تو ان سے عالمگیر ہمدردی پیدا ہوئی۔ اس ہمدردی کو ڈھال بنا کر انہوں نے اپنی تجارت کو عالم پر بالادست اور اجارہ دار بنا دیا اور حکومتوں میں دخیل ہو گئے۔
غزہ کے قتل عام کی وجہ سے ان کیلئے عالمگیر نفرت پھر سے جاگ اٹھی اور طوفان بن گئی۔ ذلّت اور مسکنت کا عارضی وقفہ ختم ہوا۔
____________
مولانا فضل الرحمن نے بڑی زوردار اپیل کی ہے کہ الیکشن ملتوی کر دئیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ دوصوبوں (کے پی کے، بلوچستان) کے حالات بہت خراب ہیں، ٹی ٹی پی والے ہمارے امیدواروں کے حامی قتل کر رہے ہیں۔
حالات تو واقعی خراب ہیں لیکن الیکشن ہر صورت 8 فروری کو ہو جائیں گے۔ مولانا نے اگر اس خیال سے انتخابی مہم نہ چلائی کہ الیکشن ملتوی ہو جائیں گے تو ان کا نقصان ہو سکتا ہے۔ امکان یا خدشہ البتہ اتنا ضرور ہے کہ کے پی کے کی بعض سیٹوں پر الیکشن نہ کرائے جائیں۔
مولانا نے جس بات کا مطالبہ کیا ہے، وہ پی ٹی آئی کا ہدف ہے۔ انٹرا پارٹی الیکشن جان بوجھ کر بوگس اسی لئے کرائے کہ پارٹی کو نشان نہ ملے اور اس کی آڑ لے کر وہ الیکشن کا بائیکاٹ کر دے۔
بائیکاٹ کرے یا نہ کرے الیکشن نے ہونا ہے، پی ٹی آئی نے اس بُری طرح ہرنا ہے اور گریٹ خان کے اس ’’عزم‘‘ کا شیشہ کرچی کرچی ہو جانا ہے کہ وہ بالآخر شیخ مجیب الرحمن بن جائیں۔
احباب اور غیر احباب اچھی طرح نوٹ فرما لیں۔