سیلاب کی تباہی اور سیاستدانوں کا رویہ

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور ترقی احسن اقبال کا رواں ہفتے ایس ڈی پی آئی کی پچیسویں سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حالیہ سیلاب سے نقصان کا اندازہ شروع میں 30 ارب ڈالر لگایا گیا تھا ، مزید اعداد و شمار کے جمع کرنے کے بعد اَب معلوم ہوا ہے کہ اصل میں یہ نقصانات 46.4 ارب ڈالر کے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے غربت 4 فیصد بڑھ گئی ہے ، خدشہ ہے کہ 8.1 ملین سے 9.1 ملین تک مزید لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ احسن اقبال کے اس انکشاف سے پہلے ہی بین الاقوامی ادارے یہی خدشات ظاہر کر رہے تھے۔ سیلاب میں تباہی کا اندازہ ا قوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹونیو گوٹیریس نے بہت پہلے لگالیا تھا اس لئے انہوں نے اقوام متحدہ سے پاکستان کی مدد کرنے نہ صرف دردمندانہ اپیل کی بلکہ خود 9-10 ستمبر کو پاکستان کا دورہ کیا تاکہ دُنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ سیلاب سے بے پناہ نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے دورے میں سیلاب زدگان سے ملاقات کی اور ان کو حوصلہ دیا کہ دُنیا کو ان کی حالت زار کا اندازہ ہے اور حتی المکان ان کی مدد کی جائے گی۔سیکریٹری جنرل نے وفاقی حکومت کو مشورہ بھی دیا کہ اسلام آباد میں عالمی ڈونرز کانفرنس جلد از جلد بلائی جائے تاکہ عالمی ادارے پاکستان کی ضروریات کا صحیح اندازہ لگا سکیں اور خاطر خواہ امداد ملنے کی راہ ہموار ہو سکے۔ افسوس ہے کہ حکومت نے ابھی تک ڈونرز کانفرنس کا انعقاد نہیں کیا کیونکہ وزراءکو سیاسی بیان بازی سے ہی فرصت نہیں ہے۔ ادھر حکومت سے باہر سیاستدان بھی اپنے مخالفین پر کیچڑ اُچھالنے میں مصروف ہیں۔
دوسری طرف مجبور اور لاچار سیلاب زدگان کھلے آسمان تلے کسمپرسی کی حالت میں موت کے اندھیروں میں اُتر رہے ہیں۔ میں نے صورت حال کی سنگینی کی بنا پر سیلاب سے متعلق اپنے کئی کالموں میں حکومت کے اندر اور حکومت سے باہر سیاستدانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ وقتی طور پر سیاسی وابستگیوں سے باہر ہو کر سیلاب زدگان کی مشکلات کم کرنے پر توجہ دیں۔ میں نے یہ بھی اپیل کی تھی کہ سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں آپس میں تعاون کریں اور اِن علاقوں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ جہاں سردی۔ بیماری اور بھوک سے اموات ہو رہی ہیں۔ کاش! ہمارے سیاستدان یہ بات سمجھ سکیں کہ قدرتی آفات جب زلزلے اور سیلاب کی صورت میں آتی ہیں تو متاثرہ علاقوں میں ہر طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں۔ سرکاری ملازم۔ تجارت سے وابستہ افراد۔مزدور۔کسان۔ طالب علم اور استاد۔ ان افراد کا تعلق تمام سیاسی جماعتوں سے ہوتا ہے۔ ا س لئے ان کی امداد کی ذمہ داری حکمران جماعت کے علاوہ اقتدار سے باہر سیاستدانوں پر بھی ہوتی ہے۔ اس لئے سیاسی جماعت کے کارکنوں اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے غیر سیاسی افراد کو مل کر قدرتی آفات سے متاثرہ افراد کی مدد کرنی چاہیئے۔
2005ءکے تباہ کن زلزلے کے بعد پاکستان کو کافی امداد ملی تھی لیکن حالیہ سیلاب سے تباہی جو زلزلہ کی نسبت بہت زیادہ ہوئی ہے کہ بعد بین الاقوامی امداد ایک ارب ڈالر سے بھی کم ملی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ 2005ءمیں ملک میں سیاسی استحکام تھا۔ حکومت اور حزب اختلاف ایک دوسرے سے دست گریباں نہیں تھے اور میڈیا نے بھی بہت ذمہ داری سے اپنا کردار ادا کیا تھا۔ بدقسمتی سے اس وقت ملک بدترین سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ حکومت سے باہر سیاستدان کی پہلی ترجیح حصولِ اقتدار ہے۔ دُنیا سیاستدانوں کے اس منفی رویہ کی وجہ سے
پاکستان کو امداد نہیں دے رہی کہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ امداد صحیح طریقہ استعمال بھی ہو سکے گی یا نہیں۔ اَب بھی وقت ہے کہ حکومت کو آگے آنا چاہیئے اور اس کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ فوراً ڈونرز کانفرنس کا انعقاد کرے اور دُنیا کو یہ باور کرائے کہ پاکستان کا ایک تہائی حصہ سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔ اس لئے بین الاقوامی امداد دینے والے اداروں کو اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیئے تاکہ لوگوں کی مشکلات میں کچھ کمی ہو سکے۔